علامہ کمال الدین ادہمیؒ لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ وہ قرآن شریف ناظرہ پڑھ رہا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ اسے عزت، فتح مندی اور خوشیاں حاصل ہوں گی اور اگر حافظے سے تلاوت کرتا ہوا دیکھے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کا کسی شخص سے عدالتی تنازعہ ہو گا اور اس کا دعویٰ صحیح ہو گا۔ نیز اس بات کی علامت ہے کہ وہ شخص امانت دار ہوگا، رقیق القلب مومن ہوگا، لوگوں کو نیکیوں کا حکم دے گا اور برائیوں سے روکے گا۔ اور جو شخص خواب میں دیکھے کہ وہ قرآن کریم کی تلاوت کر رہا ہے اور اس کے معنی بھی سمجھ رہا ہے تو یہ اس کی سلامت عقل کی دلیل ہے اور جو شخص قرآن کریم ختم کرتے ہوئے دیکھے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ اسے دل کی کوئی مراد حاصل ہو گی اور رب تعالیٰ کی جانب سے بڑا ثواب ملے گا، اور جو شخص خواب میں دیکھے کہ اس نے قرآن کریم حفظ کر لیا ہے۔ (جبکہ پہلے یاد نہیں تھا) تو اسے اپنے حالات کے مطابق کوئی اقتدار نصیب ہوگا اور اگر کوئی شخص اپنے آپ کو قرآن کریم پڑھتے ہوئے دیکھے، لیکن یہ معلوم نہ ہو کہ کون سی سورت یا کون سی آیت پڑھ رہا ہے تو اگر وہ بیمار ہے تو اسے شفا نصیب ہوگی اور اگر وہ تاجر ہے تو اسے تجارت میں فائدہ ہو گا۔ اور اگر کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ وہ کسی اور سے قرآن کریم سن رہا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ اس کا اقتدار (حسب حال) مضبوط ہو گا، خاتمہ بہتر ہو گا اور وہ مکاروں کی سازشوں سے محفوظ رہے گا اور جو شخص خواب میں دیکھے کہ وہ قرآن پڑھ رہا ہے اور لوگ سن رہے ہیں تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ کسی ایسے منصب پر فائز ہو گا، جس میں اس کے احکام کی تعمیل کی جائے گی اور اگر کوئی شخص خواب میں قرآن کریم کو بگاڑ کر یا اس میں خلل واقع کر کے تلاوت کرتا ہوا دیکھے تو یہ اس کی بد حالی کی علامت ہوگا۔ (تحبیب المسلمین بکلام رب العالمین، ص : 27 و 28 تعبیر المنام للشیخ عبد الغنی النابلسیؒ)
آزمائش!
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اپنے شیخ حضرت عثمان ہارونیؒ کے ساتھ پہاڑ کی طرف ایک مقام پر گئے۔ وہاں ایک غار میں ایک درویش کو دیکھا کہ عالم تحیر میں کھڑا ہے اور آسمان کی طرف دیکھتا ہے، چہرہ زرد ہے، ایک پاؤں غار کے باہر ہے اور دوسرا اندر ہے۔ حضرت نے اس سے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے عرض کیا ’’میں یہاں بارہ برس سے عبادت میں ہوں۔ حق تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتے ہیں کہ وہ ہماری محبت سے سرشار ہیں یا قلب کا تعلق کسی اور سے ہے۔ میری آزمائش رب تعالیٰ نے اس طرح لی کہ ایک عورت حسین و جمیل اور زیور سے آراستہ وہاں سے گزری تو شیطان نے میرے دل میں وسوسہ ڈالا۔ میں نے غار سے نکل کر اس کو دیکھنے کی خواہش کی۔ ابھی ایک پاؤں باہر نکلا تھا کہ آواز آئی ’’تم کیسے ہو کہ شرم نہیں آتی، دعویٰ ہماری محبت کا کرتے ہو اور دیکھتے عورتوں کی طرف ہو، یہ محبت کیسی ہے۔ تم میرے سامنے ہوتے ہوئے بھی دوسروں کی طرف متوجہ ہوتے ہو۔‘‘ (مخزن اخلاق)