خلاصہ تفسیر
جتنی نعمتیں تم لوگوں نے سنی ہیں، تم کو توحید و اطاعت سے ان کا شکر ادا کرنا چاہئے اور کفر معصیت سے ناشکری نہ کرنا چاہئے، کیونکہ اس عالم کے فنا کے بعد ایک دوسرا عالم آنے والا ہے، جہاں ایمان و کفر پر جزا و سزا واقع ہوگی، جس کا بیان آیات آئندہ کے ضمن میں ہے، پس ارشاد ہے کہ) جتنے (جن و انس) روئے زمین پر موجود ہیں، سب فنا ہو جائیں گے اور (صرف) آپ کے پروردگار کی ذات جو کہ عظمت (والی) اور (باوجود عظمت کے) احسان والی ہے باقی رہ جاوے گی (چونکہ مقصود تنبیہ کرنا ثقلین یعنی جن و انس کو ہے اور وہ سب زمین پر ہیں، اس لئے فنا میں اہل ارض کا ذکر کیا گیا، اس تخصیص ذکری سے دوسری چیزوں کی فنا کی نفی لازم نہیں آتی اور اس جگہ حق تعالیٰ کی دو صفتیں عظمت و احسان اس لئے ذکر کی گئیں کہ ایک صفت ذاتی دوسری اضافی ہے، حاصل اس کا یہ ہے کہ اکثر اہل عظمت دوسروں کے حل پر توجہ نہیں کیا کرتے، مگر حق تعالیٰ باوجود اس عظمت کے وہ اپنے بندوں پر رحمت و فضل فرماتے ہیں اور چونکہ یہ فناء عالم اور اس کے بعد جزا وسزا کی خبر دینا انسان کو دولت ایمان بخشتا ہے، اس لئے یہ مجموعہ بھی ایک بڑی نعمت ہے، اس لئے فرمایا) سو اے جن وانس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کی منکر ہو جاؤ گے؟ (آگے ایک خاص طور پر اس کی عظمت و اکرام کے متعلق مضمون ہے، یعنی وہ ایسا باعظمت ہے کہ) اسی سے (اپنی اپنی حاجتیں) سب آسمان و زمین والے مانگتے ہیں (زمین والوں کی حاجتیں تو ظاہر ہیں اور آسمان والے گو کھانے پینے کے محتاج نہ ہوں، لیکن رحمت و عنایت کے تو سب محتاج ہیں، آگے حق تعالیٰ کے فضل و احسان کو ایک دوسرے عنوان سے بیان کیا گیا ہے) (جاری ہے)