متعصب ہندو افسر کا قبول اسلام

حصہ اول
ضیاءالرحمن چترالی
مشرقییوپی میں ایک گاؤں کے زمیندار کے یہاں میری پیدائش13 اگست 1957ء میں ہوئی۔ میں نے 1977ء میں انٹر پاس کیا۔ میرے چچا یو پی پولیس میں ڈی ایس پی تھے، ان کی خواہش پر میں پولیس میں بھرتی ہو گیا۔ 1982ء میںدوران ملازمت میں نے بی کام کیا اور1984ء میں ایم اے کیا۔ یو پی کے55 تھانوں میں انسپکٹر اور انچارج رہا۔ 1990ء میں پرموشن ہوئی، سی او ہوگیا۔ 1997ء میں ایک ٹریننگ کیلئے فلور اکیڈمی جانا ہوا تو اکیڈمی کے ڈائریکٹر اے اے صدیقی صاحب نے جو ہمارے چچا کے دوست بھی تھے، مجھے کرمنالوجی میں پی ایچ ڈی کرنے کا مشورہ دیا اور میں نے چھٹی لے کر2000ء میں پی ایچ ڈی کیا۔
1997ء میں میری پرفارمنس (ملازمت میں بہتر کارکردگی) کی بنیاد پر خصوصی پرموشن ڈی ایس پی کے عہدے پر کی گئی اور میری پوسٹنگ مظفر نگر میں خفیہ پولیس کے محکمے میں ہو گئی۔ میرے ایک چھوٹے بھائی انجینئر ہیں۔ ایک بہن ہے، جس کی شادی ایک لیکچرار سے ہوئی ہے۔ خاندان میں تعلیم کا رواج رہا ہے۔ آج کل میں مشرقی یو پی میں ایک ضلع ہیڈکوارٹر میں محکمہ خفیہ پولیس کا ذمہ دار ہوں۔ ہمارا خاندان پڑھا لکھا ہونے کے باوجود اپنی مسلم دشمنی میں مشہور رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ رہی کہ ہمارے خاندان کی ایک شاخ تقریباً سو سال پہلے مسلمان ہو کر فتح پور ہنسو اور پرتاب گڑھ میں جا کر آباد ہوگئی تھی، جو بہت پکے مسلمان ہیں۔ ادھر ہماری بستی میں تیس سال پہلے بستی کے زمینداروں کی چھوت اچھوت سے تنگ آ کر آٹھ دلت خاندانوں نے اسلام قبول کیا تھا۔
ان دونوں واقعات کی وجہ سے ہمارے خاندان میں مسلم دشمنی کے جذبات اور بھی زیادہ ہو گئے تھے۔ بابری مسجد کی شہادت کے زمانے میں اس میں مزید زیادتی ہوگئی، ہمارے خاندان کے کچھ نوجوانوں نے بجرنگ دل کی ایک برانچ گاؤں میں قائم کر لی تھی، جس میں سب سے زیادہ خاندان کے لڑکے ممبر تھے۔ میں نے یہ باتیں اس لیے بتائیں کہ کسی آدمی کے اسلام قبول کرنے کیلئے مخالف ترین ماحول میرے لیے تھا، مگر خدا کو جس کا نام ہادی اور رحیم ہے، اپنی شان کا کرشمہ دکھانا تھا، اس نے ایک عجیب راہ سے مجھے راہ دکھائی۔
ہوا یہ کہ غازی آباد ضلع کے پلکھوہ کے ایک خاندان کے 9 لوگوں نے مولانا کلیم صاحب کے پاس آکر پھلت میں اسلام قبول کیا، وہ ماں باپ اور چار لڑکیاں اور تین لڑکے تھے۔ ایک لڑکا شادی شدہ تھا۔ مولانا صاحب نے ان کو کلمہ پڑھوانے کیلئے کہا تو انہوں نے بتایا کہ ہم آٹھ لوگ تو ابھی کلمہ پڑھ رہے ہیں، یہ بڑا لڑکا شادی شدہ ہے، اس کی بیوی ابھی تیار نہیں ہے، جب اس کی بیوی تیار ہو جائے گی، یہ اس کے ساتھ ہی کلمہ پڑھے گا۔ مولانا صاحب نے کہا کہ موت، زندگی کا کچھ بھروسہ نہیں، یہ بھی ساتھ ہی کلمہ پڑھ لے، ابھی اپنی بیوی کو نہ بتائے اور اس کو تیار کرے اور اس کے ساتھ پھر وہ دوبارہ کلمہ پڑھ لے۔ مولانا صاحب نے ان سب کو کلمہ پڑھوایا اور ان کی فرمائش پر ان سب کے نام بھی اسلامی رکھ دیئے اور ان لوگوں کے کہنے پر ایک پیڈ پر ان کے قبول اسلام اور ان کے ناموں کا سرٹیفکیٹ بنا کر دیدیا گیا، ان لوگوں کو بتا بھی دیا کہ قانونی کارروائی ضروری ہے، اس کیلئے بیان حلفی تیار کرا کے ڈی ایم کو رجسٹرڈ ڈاک سے بھیجنا اور کسی اخبار میں اعلان چھپنا کافی ہوگا۔ یہ لوگ خوشی خوشی وہاں سے گئے اور قانونی کارروائی پکی کرا لی۔ بچوں کو مدرسے میں داخل کرا دیا۔ گھر کی بڑی لڑکیاں اور ماں عورتوں کے اسلامی اجتماع میں جانے لگیں۔ مسلمان عورتوں کو جب یہ معلوم ہوا تو انہوں نے خوشی سے مٹھائی تقسیم کی۔ اسلام قبول کرنے والوں میں سے جو شادی شدہ لڑکا تھا، اس کی بیوی کو معلوم ہو گیا۔ اس نے اپنے میکے والوں کو خبر کر دی۔ ایک سے دوسرے کو خبر ہوتی گئی اور ماحول گرم ہو گیا۔(جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment