قصیدہ بہاریہ:
خدا کے طالب دیدار حضرت موسیٰ ؑ
تمہارا لیجئے خدا آپ طالب دیدار
کہاں بلندی طور اور کہاں تری معراج
کہیں ہوئے ہیں زمین آسمان بھی ہموار ؟
جمال کو ترے کب پہنچے حسن یوسف ؑ کا
دو دلربائے زلیخا تو شاہد ستار
رہا جمال پہ تیرے حجاب بشریت
نجانا کون ہے کچھ بھی کسی نے جز ستار
سما سکے تری خلوۃ میں کب نبی و ملک
خدا غیور تو اس کا حبیب اور اغیار
نہ بن پڑا وہ جمال آپ کا سا ایک شب بھی
قمر نے گو کہ کروڑوں کئے چڑھائو اتار
خوشا نصیب یہ نسبت کہاں نصیب مرے
تو جس قدر ہے بھلا میں برا اسی مقدار
نہ پہنچیں گنتی میں ہر گز ترے کمالوں کی
مرے بھی عیب شہ دوسرا شہ ابرار ؐ
عجب نہیں تری خاطر سے تیری امت کے
گناہ ہویں قیامت کو طاعتوں میں شمار
بِکیں گے آپ کی امت کے جرم ایسے گراں
کہ لاکھوں مغفرتیں کم سے کم پہ ہوں گی نثار
ترے بھروسے پر رکھتا غرئہ طاعت
گناہ قاسمؒ برگشتہ بخت، بداطوار
تمہارے حرف شفاعت پر عفو ہے عاشق
اگر گناہ کو ہے خوف غصہ قہار
یہ سن کے آپؐ شفیع گناہ گاراں ہیں
کئے ہیں میں نے اکٹھے گناہ کے انبار
ترے لحاظ سے اتنی تو ہو گئی تخفیف
بشر گناہ کریں اور ملائک استغفار
یہ ہے اجابت حق کو تری دعا کا لحاظ
قضاء مبرم و مشروط کی سنیں نہ پکار
برا ہوں، بد ہوں، گنہگار ہوں، پر تیرا ہوں
ترا کہیں ہیں مجھے گو کہ ہوں میں ناہنجار
لگے ہے تیرے سگ کو گو میرے نام سے عیب
یہ تیرے نام کا لگنا مجھے ہے عز و وقار
تو بہترین خلائق، میں بدترین جہاں
تو سرور دو جہاں، میں کمینہ خدمت گار
بہت دنوں سے تمنا ہے کیجئے عرض حال
اگر ہو اپنا کسی طرح تیرے در تک بار
مگر جہاں ہو فلک آستاں سے بھی نیچا
وہاں ہو قاسم بے بال و پر کا کیونکہ گزار
دیا ہے حق نے تجھے سب سے مرتبہ عالی
کیا ہے سارے بڑے چھوٹوں کا تجھے سردار
جو تو ہی ہم کو نہ پوچھے تو کون پوچھے گا؟
بنے گا کون ہمارا ترے سوا غمخوار؟
لیا ہے سگ نمط ابلیس نے میرا پیچھا
ہوا بنے نفس موا سانپ سا گلے کا ہار
رجاء و خوف کی موجوں میں ہے امید کی نائو
جو تو ہی ہاتھ لگائے تو ہووے بیڑا پار
امیدیں لاکھوں مگر بڑی امید ہے یہ
کہ ہو سگانِ مدینہ میں میرا نام شمار
جیوں تو ساتھ سگانِ حرم کے تیرے پھروں
مروں تو کھائیں مدینہ کے مجھ کو مور و مار
اڑا کے باد مری مشت خاک کو پس مرگ
کرے حضورؐ کے روضہ کے آس پاس نثار
ولے یہ رتبہ کہاں مشت خاک قاسم کا
کہ جائے کوچہ اطہر میں تیرے بن کے غبار
غرض نہیں مجھے اس سے بھی کچھ رہی لیکن
خد اکی اور تیری الفت سے میرا سینہ فگار
لگے وہ آتش عشق اپنی جان میں کسی کی
جلا دے چرخِ ستمگر کو ایک ہی جھونکار
تمہارے عشق میں رو رو کے ہوں نحیف اتنا
کہ آنکھیں چشمہ آبی سے ہوں درونِ غبار
رہے نہ منصب شیخ المشائخی کی طلب
نہ جی کو بھائے یہ دنیا کا کچھ بنائو سنگار
ہوا اشارہ میں دو ٹکڑے جوں قمر کا جگر
کوئی اشارہ ہمارے بھی دل کے ہو جا پار
تو تھام اپنے تئیں حد سے پاندھر باہر
سنبھال اپنے تئیں اور سنبھل کے کر گفتار
ادب کی جا ہے یہ چپ ہو تو اور زبان بند کر
وہ جانے چھوڑ اسے نہ کر کچھ اصرار
بس اب درود پڑھ اس پر اور اس کی آل پر
جو خوش ہو تجھ سے وہ اور اس کی عترت اطہار
الٰہی اس پر اور اس کی تمام آل پر بھیج
وہ رحمتیں کہ عدد کر سکے نہ ان کو شمار(ختم شد)