پہلی قسط
احمد خلیل جازم
گجرات سے کم و بیش چالیس کلومیٹر دور جلال پور جٹاں روڈ پر شیخ چوگانی گائوں واقع ہے، جہاں روایات کے مطابق انبیائے کرام کے مدفن موجود ہیں۔ یہاں ایک بڑا مزار حضرت طانوخؑ (بعض کتب میں طانوح بھی لکھا گیا ہے) کا بھی بیان کیا جاتا ہے، جو ایک اونچے ٹیلے پر واقع ہے۔ اس کے عقب اور دائیں سمت سے دریائے چناب گزر رہا ہے۔ ان دنوں مزار کی تزئین نو ہو رہی ہے، جبکہ یہاں لوگوں کی آمد و رفت سارا سال جاری رہتی ہے۔ 8 اور 9 ذوالحجہ کو عرس منایا جاتا ہے۔ آپؑ حضرت یوسفؑ کی اولاد میں سے بیان کیے جاتے ہیں۔ حضرت طانوخؑ کی قبر مبارکہ 9 گز لمبی ہے اور آپؑ کی قبر کی نشان دہی جیندڑ شریف کے خواجہ گوہرالدین احمدؒ نے کی۔ انہیں کیسے معلوم ہوا کہ یہاں پر اللہ کے نبی دفن ہیں؟ یہ جاننے کیلئے ’’امت‘‘ کی ٹیم نے شیخ چوگانی کا دورہ کیا اور جو کچھ وہاں معلوم ہوا وہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
دریائے چناب صدیوں سے اس سرزمین پر بہہ رہا ہے اور اس نے کئی بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا ہے۔ لیکن حیران کن طور پر اسی دریا کے کنارے نہ صرف حضرت طانوخؑ کا مزار بالکل محفوظ ہے، بلکہ اسی مزار کے جنوب مغرب میں واقع حضرت آمنونؑ کا مزار جو نسبتاً دریا کے زیادہ قریب ایک ٹیلے پر واقع ہے، بھی محفوظ ہے۔ جب ہم شیخ چوگانی پہنچے تو وہاں ضلع گجرات کے نوجوان تحقیق نگار شیخ ضیا، کنجاہ کے شاعر، محقق اور صحافی احسان فیصل اور ٹانڈہ کے تحقیق نگار محمد آصف مرزا بھی موجود تھے۔ شیخ چوگانی ہیڈ مرالہ روڈ پر واقع بھگووال کلاں سے دائیں جانب سڑک پر واقع ہے، جس پر دونوں انبیاؑ کے ناموں کے بورڈ زائرین کی توجہ مبذول کر اتے ہیں۔ شیخ ضیا کا کہنا تھا کہ ’’یہاں پہلے کئی دیہات آباد تھے جو اسی دریا نے چاٹ لیے، جن کا ذکر آج بھی محکمہ مال کے کاغذات میں دیکھا جا سکتا ہے۔ شیخ چوگانی قصبہ بھی نصف سے زیادہ دریا برد ہو چکا ہے اور اکثر لوگ یہاں سے دریا کی وجہ سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ لیکن حضرت طانوخؑ کی قبر مبارکہ ہزاروں برس سے اس دریا کی طغیانیوں سے محفوظ ہے‘‘۔ جب ہم شیخ چوگانی پہنچے توگاڑی کو مزار سے کچھ فاصلے پر روکنا پڑا، کیونکہ مزار کی سمت جانے والا راستہ اتنا کھلا نہ تھا کہ اس طرف گاڑی لے جائی جاسکے، چنانچہ وہاں سے پیدل مزار کی سمت بڑھے۔ مزار ایک اونچے ٹیلے پر واقع ہے، جس کے اردگرد گھنے درخت اور خودرو پودے تھے۔ اس موقع پر احسان فیصل کا کہنا تھا کہ ’’حضرت طانوخؑ کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ لیکن مقامی روایات کے ساتھ ساتھ اہل کشف اور دیگر بزرگ شخصیات انہیں پیغمبروں کا درجہ دیتے ہیں۔ ان روایات کی تائید کچھ صوفیائے کرام نے بھی کی ہے، جس کا تذکرہ جابجا کتب میں تحریر کیا گیا ہے‘‘۔ مزار کے عین سامنے نیچے ایک خوبصورت مسجد تعمیر کی گئی ہے، جس کی چھت پر خانہ کعبہ کا ماڈل بھی موجود ہے۔ اس سے قبل کہ ہم صاحب مزار کی قبر پر حاضری دیتے، بعض مقامی لوگوں سے معلوم ہوا کہ ’’چونکہ 8 ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ میں حج بیت اللہ کیا جاتا ہے، تو بعض جاہل لوگ اسی روز صاحب مزار کی قبر کے اردگرد سات چکر لگا کر سمجھتے تھے کہ انہیں حج کا ثواب مل گیا ہے۔ یہ قبیح فعل بہت پہلے ہوتا تھا اور زیادہ تر اس عمل پر عورتیں مامور ہوتی تھیں۔ لیکن اب مزار کی انتظامیہ نے اس حوالے سے بہت سختی کر دی ہے اور مزار کے سرہانے کی جانب عرس کے روز ایک بڑی سی الماری اور میز رکھ کر دو اطراف سے راستہ بند کر دیا جاتا ہے تاکہ اس کے اردگرد کوئی چکر نہ لگا سکے‘‘۔ جیسے ہی مزار کے احاطے میں داخل ہوں تو دائیں جانب مسجد، جبکہ بائیں جانب دور دراز سے آئے ہوئے مسافروں کی رہائش کیلئے چند کمرے تعمیر کیے گئے ہیں، جن کے باہر برآمدے میں فی الحال مقامی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ دائیں جانب مسجد کے سامنے سے گزر کر عقبی سمت میں مزار واقع ہے، جس تک پہنچنے کے لیے سیڑھیاں بنائی گئی ہیں۔ پہلی پانچ سیڑھیاں خاصی خطرناک اور تنگ ہیں، جن سے ذرا سی بے احتیاطی گرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کے بعد پختہ اونچائی کے بعد چار مزید بڑی اور کھلی سیڑھیاں ہیں، جنہیں عبور کرنے کے بعد درجن بھر مزید سیڑھیاں طے کرکے مزار تک پہنچا جاسکتا ہے۔ یہ سیڑھیاں عام سیڑھیوں سے قطعی مختلف ہیں۔ عمودی چھوٹی چھوٹی بنائی گئی ہیں۔ ان سیڑھیوں سے کسی مریض یا بزرگ کا گزرنا محال دکھائی دیتا ہے۔ اچھا خاصا صحت مند انسان بھی پھونک پھونک کر سیڑھیوں پر قدم رکھتا دکھائی دیتا ہے۔ اس مزار تک پہنچے کیلئے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ عقب سے دریا گزرتا ہے۔ دیگر دو اطراف سے ایک جانب ٹیلے پر اینٹوں سے دیوار چن کر مٹی کو گرنے سے روکا گیا ہے اور ٹیلے کے اردگرد مضبوط چار دیواری بنا دی گئی ہے، جس کی اونچائی ایک تو ٹیلے کی وجہ سے خاصی اونچی ہے، دوسرے وہ چاردیواری خود بھی خاصی اونچی رکھی گئی ہے۔ مزار ابھی تعمیر نو کے مراحل میں ہے۔ لیکن اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسے کس خوبی سے تعمیر کیا جارہا ہے۔ بیرونی اونچی دیواروں کے اوپر لوہے کے مضبوط سفید جنگلے لگائے گئے ہیں۔ تاکہ کسی کا مزار کی اونچائی سے گرنے کا احتمال نہ رہے۔ دوسری سمت سے اونچائی بہت زیادہ ہے اور نیچے بہت گھنے درخت اور جھاڑیاں ہیں، جن کے بعد یہی دریا گھوم کر اپنا آپ عیاں کر رہا ہے۔ چنانچہ صرف ایک راستہ ہے اور وہ بھی طے کرنا آسان امر نہیں ہے۔
وہاں پر موجود ایک شخص یونس بیگ سے ملاقات ہوئی، جس کا دعویٰ تھا کہ ’’ہمارا خاندان سات سو برس سے یہاں خدمت پر مامور ہے۔ نسل در نسل صاحب مزار کی خدمت ہمارے ذمے ہے‘‘۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ ’’پہلے یہ مزار سفید سنگ مرمر سے مزین تھا۔ یہ مزار حضرت خواجہ گوہر الدین نے تعمیر کرایا تھا۔ خواجہ صاحب یہ سنگ مرمر کشتیوں پر دریا کے دوسرے کنارے آباد سیالکوٹ سے لاتے اور یہاں نصب کراتے تھے‘‘۔ مزار کی اونچائی دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت کس قدر افرادی قوت درکار رہی ہوگی۔ اب اگرچہ یہ مزار تزئین نو کے مراحل میں ہے، لیکن اس وقت بھی یہاں کی خوبصورتی اور سکون کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مزار کے چاروں طرف خوبصورت مناظر قابل دید ہیں۔ دو اطراف سے دریائے چناب کا نظارہ خوب کیا جاسکتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل مزار کے عقب میں ایک گائوں تھا۔ یونس کا کہنا تھا کہ ’’وہ ہمارا گائوں تھا اور ہم وہیں کے رہائشی ہیں۔ لیکن دریا میں سیلاب کے باعث اب اس گائوں کا نام و نشان مٹ گیا ہے‘‘۔ مزار کے اوپر ایک بڑا گنبد اور دو چھوٹے گنبد زیر تعمیر ہیں۔ قبر مبارکہ سفید سنگ مرمر سے تعمیر کی گئی ہے۔ جس کے چاروں طرف خوبصورت جالی بھی سنگ مرمر کی تعمیرکی گئی ہے۔ مزار کے چاروں جانب بڑی بڑی ہوادار کھڑکیاں رکھی گئی ہیں۔ جن کے درمیان فاصلہ بہت کم ہے۔ ابھی چونکہ مزار زیر تعمیر ہے، اس لیے صرف سیمنٹ کا پلستر ہی دکھائی دیتا ہے۔ رنگ و روغن اور کھڑکیوں، دروازوں کا کام باقی ہے۔ مزار کے چاروں طرف چھوٹی چھوٹی تختیاں لگائی گئی ہیں۔ شیخ ضیا کا کہنا تھا کہ ’’خواجہ گوہرالدین، جیندڑ شریف سے روزانہ اپنے ایک مرید کے ہمراہ رات کو یہاں حاضری دینے آتے تھے۔ سو برس قبل جب آپ تقریباً 40 کلومیٹر روزانہ سفر طے کر کے یہاں آتے تو یہ علاقہ اپنی ویرانی کے حوالے سے کیا ہوگا، آپ اندازہ کرسکتے ہیں۔ روزانہ رات کو موسیٰ حجازیؑ (ایک اور پیغمبر، جن کا آگے ذکر آئے گا) کی قبر پر نوافل ادا کرنے کے بعد یہاں تشریف لاتے۔ رات بھر نوافل ادا کرتے یا پھر کسی رات قرآن پاک ختم کر کے فجر کے وقت واپس اپنے گائوں تشریف لے جاتے۔ حیران کن امر یہ تھا کہ خواجہ صاحب روزانہ رات کو گھوڑے اور مرید کے ہمراہ آتے، لیکن انہوں نے گھوڑے پر سواری کبھی نہیں کی، بلکہ پیدل ہی گھوڑے کی لگام تھام کر چلتے تھے۔ ایک روز مرید نے انہیں کہا کہ حضرت آپ گھوڑا ہمراہ لاتے ہیں، لیکن اس پر سوار نہیں ہوتے۔ آپ اگر گھوڑے پر سوار ہوجائیں تو سفر بھی جلد ختم ہوگا اور آپ کو تھکان بھی نہیں ہوگی۔ تو خواجہ صاحب نے اپنے مرید سے کہا کہ جوہستیاں میرے ہمراہ ان بزرگوں کی زیارت کو ساتھ ساتھ چلتی ہیں، مجھے ان کا احترام اجازت نہیں دیتا کہ وہ تو ساتھ ساتھ پیدل چلیں اور میں گھوڑے پر سوار ہوجائوں۔ اس لیے میں بھی ان کے ہمراہ پیدل ہی سفر کرتا ہوں۔ آج بھی مزار موسیٰ حجازی کی دیکھ بھال ان کے خاندان کے پاس ہے اور ان کے پوتے ابھی تک مزار کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ حضرت طانوخؑ کے مزار پر کشف کی منازل طے کرنے کے بعد حضرت گوہرالدین نے یہ انکشاف کیا کہ یہاں پر حضرت طانوخؑ محو استراحت ہیں۔ جس کی بعد میں حافظ شمس الدین آف گلیانہ شریف نے بھی تصدیق کی۔ دیگر بزرگوں نے بھی آپ کا نامِ نامی طانوخؑ ہی بیان کیا ہے۔ ابھی آپ کو موسیٰ حجازیؑ کے مزار کی طرف بھی لے کر جائیں گے۔ آپ وہاں جاکر بھی حیران ہوں گے کہ یہ بزرگ ہستیاں کہاں سے آکر کہاں مدفون ہوئی اور آج ہزاروں برس گزرنے کے بعد بھی ان کی قبور مرجع خلائق ہیں‘‘۔ ہم نے حضرت طانوخؑ کے مزار کا تفصیلی دورہ کیا۔ وہاں پر بعض لوگوں سے بات چیت کی۔ یونس کے علاوہ ایک اور شخص بھی وہاں موجود تھا، جو بظاہر تو مزار کی دیکھ بھال پر مامور تھا، لیکن مزار سے قطعی طور پر بیگانہ تھا۔ وہ کون تھا اور اس کا مزار پر کیا کام تھا، یہ بہت دلچسپ بات تھی جو سامنے آئی۔ (جاری ہے)