کراچی میں ضمنی الیکشن ووٹرز کی بھر پور توجہ حاصل نہ کرسکے

اقبال اعوان/ نجم الحسن عارف
کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 243 اور صوبائی حلقہ 87 اور لاہور میں قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 124، این اے 131 اور دو صوبائی حلقوں پی پی 164، پی پی 165 میں ضمنی الیکشن کے دوران مجموعی طور پر پولنگ کا عمل پرسکون رہا۔ تاہم شہر قائد میں ضمنی الیکشن ووٹرز کی بھرپور توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ دوسری جانب لاہور میں چند پولنگ اسٹیشنوں کے اطراف تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے ووٹرز اور سپورٹرز آمنے سامنے آئے ضرور اور مخالفانہ نعرے بازی بھی ہوئی، جبکہ ایک واقعے میں پی ٹی آئی کے چند کارکنان معمولی زخمی ہوئے، تاہم تادم تحریر کہیں بھی بڑے تصادم کی اطلاعات نہیں تھیں۔
کراچی میں سیکورٹی اداروں نے مربوط حکمت عملی اپنا کر خصوصی اقدامات کئے تھے۔ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں نے ووٹرز کو لانے لے جانے کی سہولتیں بھی فراہم کیں۔ اس کے باوجود ووٹنگ کی شرح 30 سے 35 فیصد ہی نظر آئی۔ خواتین ووٹرز نہ ہونے کے برابر تھیں۔ جبکہ مرد ووٹرز میں بھی بزرگ شہری کم اور نوجوان زیادہ تھے۔
کراچی میں صوبائی حلقہ پی ایس 87 کے علاقوں میں دو رہائشی آبادیاں گلشن حدید فیز ون اور ٹو، کے علاوہ اسٹیل ٹاؤن واقع ہیں۔ جبکہ گڈاپ، ملیر اور بن قاسم کے گوٹھ بھی شامل ہیں۔ گوٹھوں میں سیکورٹی خدشات کے باعث سیکورٹی زیادہ رکھی گئی تھی۔ حلقے کے علاقوں میں رینجرز اور پولیس کا گشت جاری رہا۔ پولنگ اسٹیشن کے اندر جانے کیلئے تین حصاروں سے گزرنا پڑ رہا تھا۔ پہلے مرحلے میں پولیس اہلکار، دوسرے حصار میں رینجرز اور تیسرے حصار میں پاک فوج کے جوان چیکنگ پر مامور تھے۔ ووٹنگ کا سلسلہ وقت پر شروع ہوا اور شام 5 بجے اختتام پذیر ہوا۔
کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 243 میں مختلف پارٹیوں کے کارکنوں میں تصادم کا خطرہ تھا، جس کے باعث سخت سیکورٹی اقدامات کئے گئے۔ یہاں اصل مقابلہ ایم کیو ایم پاکستان اور تحریک انصاف کے امیدواروں میں تھا۔ اس حلقے میں ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ سے زائد ہے۔ پولنگ اسٹیشن کی تعداد 216 تھی۔ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف سمیت دیگر پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کی مجموعی تعداد 22 تھی۔ یہ حلقہ شہری آبادیوں گلستان جوہر، گلشن اقبال، پی آئی بی کالونی، عیسیٰ نگری، بہادر آباد اور دھوراجی سمیت دیگر علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہاں بھی پولنگ اسٹیشن صبح 8 بجے شروع ہوئی اور 5 بجے شام تک پر امن انداز میں جاری رہی۔ تاہم ووٹرز کی دلچسپی بہت کم دیکھی گئی۔ اتوار کے روز چھٹی کے باوجود سیاسی ورکرز ووٹروں کو بڑی تعداد میں گھروں سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ گلشن اقبال میں تحریک انصاف کے کیمپ پر موجود جبار کا کہنا تھا کہ ’’عام انتخابات میں چونکہ امیدوار عمران خان تھے، اس لئے ووٹرز کی بڑی تعداد نظر آئی۔ لیکن پی ٹی آئی کے امیدوار عالمگیر خان کے لئے ایسا جوش و خروش نظر نہیں آرہا۔‘‘ واضح رہے کہ اس حلقے سے ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے فیصل سبزواری کو کھڑا کیا جانا تھا، تاہم عامر خان گروپ ہر صورت عامر ولی الدین چشتی کو امیدوار لانے میں بضد تھا۔ اس لئے عامر چشتی کو ٹکٹ دیا گیا۔
ادھر لاہور میں بھی دو قومی اسمبلی کے حلقوں این اے 131، این اے 124 اور صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں پی پی 164، پی پی 165 میں ضمنی انتخابات پر امن انداز میں مکمل ہوئے۔ مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف پولنگ کے آخری آدھے گھنٹے میں پولنگ اسٹیشن پہنچے۔ جبکہ ان کی والدہ شمیم اختر اور مریم نواز نے ووٹ ڈالنے کو اپنی دیگر مصروفیات سے اہم نہیں سمجھا۔ میاں نواز شریف ساڑھے چار بجے کے بعد گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی میں قائم پولنگ اسٹیشن پہنچے تو ان کی جیب میں ان کا شناختی کارڈ موجود نہیں تھا۔ وہ اپنا شناختی کارڈ گھر بھول آئے تھے۔ یوں انہیں ووٹ ڈالے بغیر گھر واپس آنا پڑا۔ ’’امت‘‘ کو شریف خاندان کے اسٹاف کے ذرائع نے بتایا کہ میاں نواز شریف کے اسٹاف ممبر حاجی شکیل کی اتوار کو ہفتہ وار چھٹی تھی۔ اس لئے نواز شریف کا شناختی کارڈ ان کی جیب میں نہ تھا۔ تاہم ان ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ حاجی شکیل ہفتے کے روز نواز شریف کا شناختی کارڈ حوالے کر گئے تھے اور وہ متعلقہ اسٹاف کے پاس تھا، جو وہ اتوار کو نواز شریف کے حوالے کرنا بھول گیا۔
ضمنی انتخابات کے ٹھنڈے ماحول میں اکا دکا مقامات پر مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور تحریک انصاف کے جذباتی کارکنوں کے درمیان گرما گرم نعروں کا تبادلہ دیکھنے میں آیا۔ جبکہ این اے 131 میں جہاں کے لیگی امیدوار خواجہ سعد رفیق کی گرما گرم تقریروں کی شہرت رکھنے کے باعث ان کے کارکن بھی کافی ’’چارج‘‘ نظر آئے۔ اندرون شہر میں روایتی سیاسی کارکنوں میں اپنی جماعت نواز لیگ کے لئے والہانہ پن کے مناظر کہیں کہیں دیکھنے کو ملتے رہے۔ تاہم پارٹی کی قیادت کی طرف سے انتخابی مہم کے دوران کم دستیابی اور کھل کر نہ کھیلنے کی حکمت عملی عین انتخاب کے روز بھی جاری رہی۔ صبح آٹھ بجے جب پولنگ کا آغاز ہوا تو سیکورٹی کے انتظامات کیلئے پولیس کے علاوہ رینجرز کے اہلکار بھی ضروری جگہوں پر موجود تھے۔ جبکہ پولنگ اسٹیشن کے اندر فوجی اہلکار بھی 2018ء کے عام انتخابات کی طرح موجود تھے۔ اس وجہ سے بعض جگہوں پر میڈیا کی رسائی تو مشکل رہی، البتہ پولنگ کا عمل مکمل طور پر امن اور ’’اسموتھ‘‘ انداز میں جاری رہا۔ صبح کے وقت کئی پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹرز کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ البتہ دوپہر کے قریب پولنگ اسٹیشنوں کے اندر اور باہر قدرے رونق نظر آنے لگی۔ اس کے باوجود 25 جولائی والی گہما گہمی موجود نہ تھی۔
این اے 124 میں مسلم لیگ نواز کے امیدوار سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی حلقے میں گزشتہ روز کم وقت کیلئے موجودگی کی وجہ سے لیگی کارکنوں کا جذبہ کچھ ماند رہا۔ لیکن چونکہ ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے امیدوار غلام محی الدین دیوان کی پوزیشن بہت کمزور تھی، اس لئے وہ عملی طور پر شکست تسلیم کرتے ہوئے پائے گئے۔ ایک پولنگ اسٹیشن کے باہر انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ میں الیکشن ہار بھی گیا تو پورے پانچ سال حلقے کے لوگوں کے ساتھ رہوں گا۔ واضح رہے کہ این اے 124 روایتی طور پر شریف خاندان کا حلقہ ہے اور پچھلے کئی عام انتخابات میں یہاں سے حمزہ شہباز شریف ہی کامیاب ہوتے رہے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment