امت رپورٹ
کرکٹ اور دوسرے کھیلوں پر جوا کھیلنے کے ساتھ ساتھ اب پاکستان میں سیاست پر سٹے کا رجحان بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ سٹے کی دنیا سے جڑے ذرائع کے مطابق نہ صرف 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے دوران بڑے پیمانے پر جوا کھیلا گیا، بلکہ ضمنی الیکشن میں بھی یہ سلسلہ چلتا رہا۔ لیکن رقم لگانے کا حجم جنرل الیکشن کے مقابلے میں بہت کم تھا۔ ذرائع کے مطابق امریکہ اور یورپی ممالک میں انتخابات اور ریفرنڈم پر جوا ایک معمول کی بات ہے اور قریباً پچھلے 20 برس سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ تاہم پاکستان اور بھارت میں یہ رجحان آہستہ آہستہ پنپ رہا ہے اور فی الحال دونوں ممالک میں الیکشن پر علاقائی سطح پر جوا کھیلا جاتا ہے۔ یعنی اس کا تعلق ابھی ممبئی، دبئی یا جنوبی افریقہ میں قائم بکیز کے عالمی نیٹ ورک سے نہیں جڑا۔ تاہم جس تیزی سے یہ رجحان پروان چڑھ رہا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اگلے چند برس میں دونوں ممالک میں ہونے والے جنرل الیکشن، ضمنی انتخابات اور بلدیاتی انتخابات کے ریٹ بھی بین الاقوامی مارکیٹ میں کھلا کریں گے۔
کراچی اور لاہور میں کرکٹ پر سٹے کی چھوٹی بکیں چلانے والے دو بکیز نے بتایا کہ 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں ملک بھر میں 25 سے 27 کروڑ کا سٹہ کھیلا گیا تھا۔ سب سے زیادہ 8 کروڑ کا جوا کراچی اور ساڑھے سات کروڑ کا سٹہ لاہور میں ہوا۔ بکیز کے بقول علاقائی سطح پر سیاست پر سٹے کا سلسلہ پاکستان میں 2008ء میں چھوٹے پیمانے پر شروع ہوا تھا۔ اب یہ سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ سٹہ عموماً کرکٹ پر چھوٹی بکیں چلانے والے کراتے ہیں۔ اور اس کا ریٹ ہر شہر کا بکی اپنی مرضی سے کھولتا ہے۔ 25 جولائی کے انتخابات کا ریٹ کراچی کی گھاس منڈی میں کھلا تھا۔ جس میں تحریک انصاف فیورٹ تھی۔ اور اس کی جیت کا ریٹ 70 پیسے تھا۔ پی ٹی آئی کے لئے غیبی امداد کا عام تاثر دیکھتے ہوئے بکیز نے اسے فیورٹ قرار دیا تھا۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی فتح کا بھائو ایک روپے 30 پیسے تھا۔ اسی طرح بکیز نے سندھ میں پیپلز پارٹی کو ہی فیورٹ قرار دیا تھا۔ اس کی جیت کا ریٹ 60 پیسے اور ایم کیو ایم کی فتح کا ریٹ دو روپے 10 پیسے تھا۔
بکیز کے مطابق حالیہ ضمنی الیکشن پر ملک بھر میں7 سے 8 کروڑ کا سٹہ کھیلا گیا۔ ان میں سب سے زیادہ ساڑھے 5 کروڑ روپے کا سٹہ پنجاب، بالخصوص لاہور میں کھیلا گیا۔ لاہور میں قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوئے۔ مقامی بکیز نے این اے 131 سے الیکشن لڑنے والے پی ٹی آئی کے ہمایوں اختر کو فیورٹ قرار دے رکھا تھا۔ ہمایوں اختر کی جیت کا ریٹ 65 پیسے تھا۔ جبکہ ان کے مد مقابل نون لیگ کے امیدوار خواجہ سعد رفیق کی فتح کا بھائو 90 پیسے تھا۔ یہ ریٹس لاہور کے علاقے کریم پارک میں کرکٹ پر بڑی بک چلانے والے چوہدری شمشاد گروپ نے نکالے تھے۔ تاہم الیکشن پر سٹہ اس گروپ کے ایجنٹوں نے کرایا۔ آخری اطلاع آنے تک فیورٹ ہمایوں اختر سے خواجہ سعد رفیق آگے تھے۔ ذرائع کے مطابق اسی طرح لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 124 میں نون لیگ کے شاہد خاقان عباسی کو بکیز نے فیورٹ قرار دیا تھا۔ ان کا بھائو 37 پیسے اور ان کے مدمقابل پی ٹی آئی کے امیدوار محی الدین دیوان کی جیت کا ریٹ 95 پیسے تھا۔ یہ الیکشن سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے نام رہا۔ ذرائع نے بتایا کہ لاہور کی اس نشست پر پہلے سے ہی شاہد خاقان عباسی کی جیت کے امکانات قوی تھے۔ یہ حلقہ نون لیگ کا گڑھ کہلاتا ہے اور 25 جولائی کے عام انتخابات میں یہ نشست حمزہ شہباز نے بھاری مارجن سے جیتی تھی۔ شاہد خاقان عباسی کے مقابلے میں تحریک انصاف نے آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے رکن غلام محی الدین دیوان کو اس لئے ٹکٹ دیا تھا کہ اس حلقے میں کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد بھی آباد ہے۔ لیکن یہ جادو نہ چل سکا۔ نون لیگ نے نہ صرف روایتی سیٹ جیت لی، بلکہ جواریوں کی جیبیں بھی بھر گئیں۔ دوسری جانب لاہور کے حلقہ 131 میں نون لیگ کے خواجہ سعد رفیق اور پی ٹی آئی کے ہمایوں اختر کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی تھی۔ اور ایسا ہی ہوا۔ ذرائع کے مطابق ہمایوں اختر نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جس طرح ووٹرز میں پیسہ تقسیم کیا، اسے دیکھتے ہوئے بکیوں نے انہیں فیورٹ قرار دے رکھا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ ہمایوں اختر نے اس حلقے کے نصف درجن سے زائد علاقوں نشاط کالونی، شاہین کالونی، مدینہ کالونی، کَوڑہ پنڈ، قادری کالونی، فاروق کالونی اور پیر کالونی میں نوجوان ووٹرز کو فی کس پانچ پانچ ہزار روپے دیئے۔ یہ رقوم 10، 11 اور 12 اکتوبر کو تقسیم کی گئیں۔ مدینہ کالونی میں پیسہ تقسیم کرنے کی ذمہ داری ہمایوں اختر نے اپنے سپورٹر خرم سلطان کو دے رکھی تھی۔ ذرائع کے بقول اسی طرح اپنے گھروں کے ڈرائنگ رومز کو ہمایوں اختر کے عارضی انتخابی دفاتر بنانے والے مکینوں کو فی کس 20، 20 ہزار روپے فراہم کئے گئے۔ حلقے کے کم از کم 30 سے 35 ایسے مکین تھے، جنہوں نے اپنی بیٹھکوں (ڈرائنگ روم) کا فرنیچر گھر کے دیگر کمروں میں شفٹ کر دیا تھا اور یہ ڈرائنگ رومز 5 سے 7 دن تک ہمایوں اختر کے انتخابی دفاتر کے طور پر استعمال ہوئے۔ اس کے باوجود ان سطور کے لکھے جانے تک سعد رفیق کو ہمایوں اختر پر برتری حاصل تھی۔ خواجہ سعد رفیق کی انتخابی مہم چلانے والے ایک مقامی عہدیدار نے بتایا کہ کنجوسی کے لئے مشہور خواجہ سعد نے اپنی جیب سے زیادہ پیسہ خرچ نہیں کیا۔ حتیٰ کہ انہیں ووٹ ڈالنے کے لئے زیادہ تر لیگی ووٹرز خود کرایہ دے کر پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچے۔ تاہم 20 سے 25 فیصد لیگی ووٹرز کے لئے چنگچی رکشوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ رکشوں کا کرایہ اور انتخابی مہم کا دیگر خرچہ بھی خواجہ سعد کے پنٹرز نے اٹھایا۔ ان میں سے کئی ایسے تھے، جنہیں خواجہ سعد کے دور میں ریلوے میں کینٹین کے ٹھیکے ملے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے امیدوار نے اپنے ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچانے کے لئے والٹن ورکشاپ اسٹاپ سے چلنے والی ویگن نمبر 106 کی بیشتر گاڑیاں ہائر کرا رکھی تھیں۔ ذرائع کے مطابق لاہور میں صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں پی پی 164 اور پی پی 165 پر بھی بکیز نے نون لیگ کے امیدواروں کو فیورٹ قرار دیا تھا۔ ان میں سے نون لیگ کا ایک امیدوار فیصل ملوک کھوکھر تحریک انصاف کے ایم این اے کرامت کھوکھر کی برادری سے تعلق رکھتا ہے۔ علاقے میں یہ بات عام ہے کہ منشا بم فیصل ملوک کھوکھر کا بھی فرنٹ مین ہے۔ کھوکھر برادری کے ارکان مختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستگی رکھتے ہیں۔ لہٰذا کوئی بھی پارٹی جیتے ان کے کام جاری رہتے ہیں۔ عام الیکشن میں لاہور کے جن علاقوں میں جوا کھیلا گیا، ان میں کریم پارک، انار کلی بازار، شاد باغ، وسن پورہ، سمن آباد، ڈیفنس اور دیگر علاقے شامل ہیں۔ جبکہ ذرائع کے بقول لاکھوں کا جوا ان ہی علاقوں میں واقع پان سگریٹ کی دکانوں، حماموں اور اسنوکر و کیرم کلبوں میں بھی کھیلا گیا۔ تاہم 25 جولائی کے عام انتخابات کے برعکس ضمنی الیکشن پر کراچی میں کھیلے گئے جوئے کا حجم زیادہ نہیں تھا۔ بکیز نے این اے 243 سے الیکشن لڑنے والے محمد عالمگیر خان کو فیورٹ قرار دیا تھا۔ ان کی جیت کا ریٹ 60 پیسے، جبکہ ایم کیو ایم کے امیدوار عامر چشتی کے بھائو کا ریٹ ایک روپے 10 پیسے تھا۔ اسی طرح ملیر میں پیپلز پارٹی کی مضبوط پوزیشن کو دیکھتے ہوئے بکیز نے پی پی امیدوار محمد ساجد کو فیورٹ قرار دیا تھا۔ الیکشن پر کراچی میں گھاس منڈی، کھارادر، سولجر بازار اور ڈیفنس میں سٹہ کھیلا گیا۔ اس میں کوئی بڑی بک چلانے والا بکی شامل نہیں تھا۔ تاہم فیصل عرف بافیلا نامی بڑے بکی کے فرنٹ مینوں نے جوا کرایا۔
اس وقت سیاست پر سٹہ کرانے والی آن لائن کمپنیوں میں بیٹ فیئر سرفہرست ہے۔ جو کھیلوں پر شرطیں لگانے کے حوالے سے بھی مقبول ہے۔ ذرائع کے مطابق جس طرح کرکٹ سے لے کر بیس بال کے مقابلوں پر بیٹ فیئر کے نکالے گئے ریٹس کو دنیا بھر کے بکیز فالو کرتے ہیں، اسی طرح سیاست پر شرطوں کے بھائو کے لئے بھی بیٹ فیئر کو ہی فالو کیا جا رہا ہے۔ بیٹ فیئر نے آسٹریلیا، برازیل اور امریکہ میں ہونے والے آئندہ صدارتی الیکشن کے ریٹ بھی ابھی سے کھول دیئے ہیں۔ آسٹریلین فیڈریشن الیکشن 18 مئی 2019ء سے شروع ہوں گے۔ پہلے مرحلے میں ریاستی سینیٹروں کی نصف تعداد کا انتخاب کیا جائے گا۔ 2 نومبر 2019ء سے ایوان نمائندگان اور علاقائی سینیٹرز کا چنائو ہو گا۔ بکیز نے اپوزیشن لیبر پارٹی کو فیورٹ قرار دیا ہے۔ اس کی جیت کا بھائو 34 پینی کھلا ہے۔ جبکہ حکمراں لبرل پارٹی کے اتحاد کا بھائو دو ڈالر ہے۔ دیگر پارٹیوں کی فتح کے ریٹ 55 ڈالر تک ہیں۔ برازیل میں جنرل الیکشن کا پہلا مرحلہ 7 اکتوبر کو ہو چکا ہے۔ جبکہ دوسرا مرحلہ 28 اکتوبر کو ہو گا۔ ان انتخابات میں برازیل کے نئے صدر، نائب صدر کے چنائو کے علاوہ ریاستی گورنروں، نائب گورنروں، ریاستی قانون ساز اسمبلی اور وفاقی ضلعی قانون ساز چیمبر کے ارکان کو منتخب کیا جائے گا۔ بکیز نے ان انتخابات میں سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کو فیورٹ قرار دیا ہے۔ بیٹ فیئر نے 3 نومبر 2020ء کو شیڈول امریکی صدارتی انتخابات پر شرطوں کی بکنگ بھی ابھی سے کھول دی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کو فیورٹ قرار دیا گیا ہے۔ ری پبلکن پارٹی کے ٹرمپ کی دوبارہ جیت کا ریٹ ایک ڈالر 7 پینی، جبکہ ڈیمو کریٹک پارٹی کی کمالا ہیرس کا ریٹ 5 ڈالر کھلا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ان انتخابات پر صرف متعلقہ ممالک کے لوگ ہی جوا نہیں کھیلتے، جو کہ ان کے ہاں قانونی ہے۔ بلکہ پاکستان، بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے جواریوں کی ایک بڑی تعداد ان انتخابات پر آن لائن پیسہ لگاتی ہے۔