حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی

قسط نمبر31
سید ارتضی علی کرمانی
مفتی انتظام اﷲ نے اپنی کتاب ’’ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی علماء‘‘ میں اس طرح کیا ہے۔
’’ فنڈر نامی پادری یورپ سے ہندوستان آیا۔ اسے عربی اور فارسی اور اسلامی علوم میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ اس نے اسلام پر اعتراضات کا ایک لامتناہی سلسلہ چھیڑ دیا۔ ہندوستانی مسلمانوں کو عیسائیت اور عیسوی مذہب سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ علمائے کرام بھی اس مذہب کو تفصیلات سے واقف نہ تھے اور انہوں نے اس طرف کبھی توجہ بھی نہیں کی تھی۔ البتہ بعض محققین نے دین عیسوی پر کافی مطالعہ کر رکھا تھا۔ بہار کے ایک ڈاکٹر وزیر خان نامی جو مرشد آباد میں ایک عرصہ تک رہے۔
ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے یورپ بھی گئے اور وہاں انہوں نے عیسائی مذہب پر جس قدر کتابیں مل سکیں۔ ان کا شرح و تفسیر سے مطالعہ کیا۔ ہندوستان واپس آ کر گورنمنٹ نے ان کا تقرر آگرہ میں کر دیا۔
پادری فنڈر مذکور نے ہندوستان میں چند جگہ علما سے بھی گفتگو کی، مگر وہ جواب نہ دے سکے۔ پھر وہ آگرے آیا۔ یہاں اس وقت صدر نظامت کی وجہ سے علماء کا بڑا مجمع تھا۔ ڈاکٹر وزیر خان اور مولانا رحمت اﷲ کے باہم بڑے اچھے تعلقات تھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے پادری کی آمد کے بعد کیرانہ سے مولانا رحمت اﷲ کو بلوایا۔ آپ یہاں آ کر سکونت پذیر ہوئے۔
حکام صدر نے آگرہ میں مناظرہ کرانے کا اعلان کر دیا۔ چنانچہ رجب 1854ء میں یہ مناظرہ ہوا۔ جس میں ہندوستان سے بھی بڑے بڑے علمائے کرام اور امراء نے شرکت کی۔ مسٹر راسمٹ حاکم صدر، مسٹر کریسٹن سیکریٹری ریونیو بورڈ، مسٹر ولیمز حاکم علاقہ فوجی، مسٹر لیڈ نے مترجم اولی، گورنمنٹ حکام میما سے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ عیسائیوں کی طرف سے پادری فنڈر مناظر اول اور پادری فرنچ مناظر دوم اور اہل اسلام کی جانب سے مولانا رحمت اﷲ مناظر اول اور ڈاکٹر وزیر خان ان کے ساتھی تھے۔
یہ مناظرہ مسلسل کئی یوم تک چلتا رہا۔ آخر کار شکست فاش کے ساتھ فنڈر مجلس سے اٹھا اور آگرہ سے کوچ کر گیا۔
آگرہ کے بعد مولانا نے انگریزوں کے خلاف جہادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مگر اپنوں کی غداریوں سے کامیابی نہ ہوئی۔ یوں یہ مرد حریت مایوس ہو کر مکہ مکرمہ ہجرت کر گیا۔ آپ کی گرفتاری پر ایک ہزار روپیہ انعام انگریزوں نے مقرر کر رکھا تھا۔ آپ کی تمام کی تمام جائیداد انگریزوں نے 3 جنوری 1864ء میں نیلام کر دی۔
مولانا رحمت علی صاحب نے حضرت صاحب ؒ سے بیعت کی استدعا کی تھی، مگر حضرت صاحب ؒ نے مولانا صاحب ؒ کی عمر اور علم و فضل کا لحاظ کرتے ہوئے بیعت لینے میں تو عذر کیا تھا، مگر وظائف اوراد تلقین فرما دیتے تھے۔ مولانا صاحب ؒ کے شاگرد خاص قاری عبداﷲ الہ آبادی کے ایک خط میں تحریر ہے کہ مولانا صاحب کے وصال کے وقت میں موجود تھا۔ وہ اپنی بیماری کے دوران فرماتے تھے کہ گولڑہ جانے کو بہت جی چاہتا ہے اور وصال سے تھوڑی دیر قبل فرمایا کہ میری آنکھوں کے سامنے پیر صاحب کا سبز رومال پھر رہا ہے۔ مستری حبیب اﷲ لاہور اور حضرت صاحب ؒ کے شاگرد فیض عالم بھی اس وقت مولانا صاحب ؒ کی خدمت میں موجود تھے اور ان باتوں کی تصدیق کرتے تھے۔
حضرت مولانا رحمت اﷲ مہاجر مکی کا وصال 2 مئی 1891ء بمطابق اسلامی تقویم 24 رمضان المبارک 1308ھ مکہ مکرمہ میں ہوا اور وہیں دفن ہوئے۔
حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی (1808ء تا 1900ء)
حضرت امداد اﷲ مہاجر مکی ایک بہت بڑے عالم دین اور ولی کامل تھے۔ ہر مکتبہ فکر کے لوگ آپ کی از حد عزت و تکریم کرتے تھے۔ حضرت پیر سید مہر علی شاہ ؒ فرماتے تھے کہ دوران قیام حجاز مقدس ایک مرتبہ میں حاجی صاحب ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت ہندوستان کے چار مشہور علماء بھی درس میں حاضر تھے۔ میری تقریر اور حاجی صاحب ؒ کی جوابی مہربانی کو انہوں نے کچھ زیادہ محسوس کیا اور مجھ سے ایک نے منطقی سوال پوچھا۔ میں نے کہا میاں صاحب یہاں تو ایک باخدا انسان (حاجی امداد اﷲ صاحب) کی مجلس ہے۔ یہاں سے کچھ حاصل کرنا چاہئے۔ یہ مناظرہ کا مقام نہیں۔ اگر آپ حضرات کو مناظرے کا اتنا ہی شوق ہے تو فلاں مقام پر آ کر مجھ سے گفتگو کر لیجئے گا اور اگر میرے پاس آنا آپ مناسب خیال نہ فرمائیں تو میں خود آپ کے مقام پر حاضر ہو جائوں گا۔ یہ جواب سن کر وہ حضرات خاموش رہے۔
حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی کی تفصیل حالات آپ ’’عقیدت‘‘ کے عنوان سے مضمون میں کر سکتے ہیں۔(جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment