معارف القرآن

خلاصہ تفسیر
وہ ہر وقت کسی نہ کسی کام میں رہتا ہے (یہ مطلب نہیں کہ صدور افعال اس کے لوازم ذات سے ہے، ورنہ قدیم ہونا حادث کا لازم آئے گا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جتنے تصرفات عالم میں واقع ہو رہے ہیں، وہ اسی کے تصرفات ہیں، جن میں اس کے انعامات و احسانات بھی داخل ہیں، جیسے ایجاد و ابقاء جو رحمت عامہ ہے اور اعطاء رزق و اولاد جو سب دنیوی رحمتیں ہیں اور ہدایت و اعطاء علم و توفیق عمل جو دینی رحمتیں ہیں، پس باوجود عظمت کے ایسا اکرام و احسان فرمانا یہ بھی ایک نعمت عظیمہ ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہو جاؤ گے؟ (یہ مضمون جلال و اکرام کا بقا خالق کے متعلق فرما کر آگے پھر فنا خلق کے متعلق ارشاد ہے کہ تم لوگ یہ نہ سمجھنا کہ پھر وہ فنا مستمر رہے گی اور عذاب و ثواب نہ ہوگا ، بلکہ ہم تم کو دوبارہ زندہ کریں گے اور جزا وسزا دیں گے اسی کو اس طرح فرماتے ہیں کہ) اے جن و انس ہم عنقریب تمہارے (حساب و کتاب کے) لئے خالی ہوئے جاتے ہیں (یعنی حساب و کتاب لینے والے ہیں، مجازاً و مبالغتاً اس کو خالی ہونے سے تعبیر فرما دیا اور مبالغہ اس طرح ہے کہ انسان جب سب کاموں سے خالی ہو کر کسی طرف متوجہ ہوتا ہے تو پوری توجہ سمجھی جاتی ہے، انسانی فہم کے مطابق یہ عنوان اختیار کیا گیا، ورنہ حق تعالیٰ کی اصل شان یہ ہے کہ اس کو ایک مشغولیت کسی دوسری مشغولیت سے مانع نہیں ہوتی اور اس کی جس طرف جس وقت توجہ ہوتی ہے تام اور کامل ہی ہوتی ہے، وہاں ناقص توجہ کا احتمال ہی نہیں اور مثل سابق آگے ارشاد ہے کہ یہ حساب کتاب کی خبر دینا بھی ایک نعمت عظمیٰ ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہو جاؤ گے؟ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment