متعصب ہندو افسر کا قبول اسلام

حصہ دوم
ضیاءالرحمن چترالی
اس واقعہ پر علاقے کی ہندو تنظیمیں جوش میں آگئیں۔ مختلف ٹی وی چینل کے لوگ آگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے خبر پھیل گئی۔ دینک جاگرن اور امرا جالا دونوں ہندو اخباروں میں بڑی بڑی خبریں چھپیں، جن کی ہیڈنگ تھی ’’لالچ دے کر دھرمانترن پر پوری ہندو برادری میں روش، دھرمانترن پھلت مدرسہ میں ہوا‘‘۔
اس خبر سے پورے علاقے میں گرمی پیدا ہوگئی۔ میری پوسٹنگ مظفرنگر میں تھی۔ علاوہ اپنی دفتری ذمہ داری کے مجھے خود اس خبر پر غصہ آیا اور ہم اپنے دو انسپکٹروں کو لے کر پھلت پہنچے، وہاں جن لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور بتایا کہ مولانا کلیم صاحب ہی صحیح بات بتا سکتے ہیں اور ہمیں اطمینان دلایا کہ ہمارے ہاں کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوتا۔ مولانا صاحب سے آپ ملیں، وہ آپ کو بالکل حق بات بتا دیں گے۔
میں نے اپنا فون نمبر وہاں دیا کہ مولانا صاحب سے معلوم کرکے مجھے بتائیں کہ وہ پھلت کب آ رہے ہیں؟ تیسرے روز مولانا کا پھلت کا پروگرام تھا۔ اگلے روز صبح 11 بجے ہم پھلت پہنچے۔ مولانا صاحب سے ملے، مولانا صاحب بہت خوشی سے ہم سے ملے۔ ہمارے لیے چائے ناشتہ منگوایا۔ وہ بولے کہ بہت خوشی ہوئی، آپ آئے، اصل میں مولوی، ملاؤں اور مدرسوں کے سلسلے میں بہت غلط پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ میں تو اپنے ساتھیوں اور مدرسے والوں سے بار بار یہ کہتا ہوں کہ پولیس والوں، ہندو تنظیموں کے ذمہ داروں، سی آئی ڈی اور سی بی آئی کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مدرسوں میں بلانا، بلکہ چند دن مدرسوں میں مہمان رکھنا چاہیے، تاکہ وہ اندر کے حال سے واقف ہو جائیں اور مدرسوں کی قدر پہچانیں۔
مولانا نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا کہ آپ ایک دن پہلے ہی آئے تھے، مجھے ایک سفر پر ادھر ہی سے جانا تھا، مگر خیال ہوا کہ آپ کو انتظار کرنا ہوگا، اس لیے میں صرف آپ کیلئے آج آگیا ہوں۔ مولانا صاحب نے ہنس کر کہا: فرمائیے، میرے لائق کیا سیوا (خدمت) ہے؟ مولانا نے بتایا کہ رات مجھے یہ اخبار دکھایا گیا تھا، میں نے امراجالا میں یہ خبر پڑھی ہے۔ میں نے کہا پھر آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
مولانا صاحب نے بتایا کہ میں ایک سفر کیلئے گاڑی میں سوار ہو رہا تھا کہ ایک جیپ گاڑی آئی، مجھے سفر کی جلدی تھی۔ میں نے ساتھیوں سے کہا کہ یہ لوگ حضرت جی سے ملنے آئے ہوں گے، ان کو ادھر قاری حفظ الرحمٰن صاحب کا پتہ بتا دو، مگر ایک صاحب مجھے جانتے تھے۔ ہمیں کسی دوسری جگہ نہیں جانا ہے، ہم لوگ آپ کے پاس آئے ہیں۔ یہ ہمارے بھائی اپنے گھر والوں کے ساتھ مسلمان ہونا چاہتے ہیں اور ایک ماہ سے پریشان ہیں۔ میں گاڑی سے اترا، ان کو کلمہ پڑھوایا، اس کے زیادہ اصرار پر ان کے اسلامی نام بھی بتائے اور ان کو ایک سرٹیفکیٹ بھی قبولِ اسلام کا دیا اور ان کو بتا دیا کہ جب آپ بیان حلفی تیار کر کے ڈی ایم کو اطلاع کریں گے، تب قانونی کارروائی مکمل ہوگی اور ایک اخبار میں اعلان کر دیں گے۔ ان لوگوں نے وعدہ کیا کل ہی جا کر ہم سب کارروائی پوری کریں گے اور میرے علم میں آیا ہے کہ انہوں نے یہ سب کام کرا لیے ہیں۔
مولانا کلیم صاحب نے کہا کہ ہمارا ملک سیکولر ہے اور ملک کے قانون نے اپنے مذہب کو ماننے اور مذہب کی دعوت دینے کا بنیادی حق ہمیں دیا ہے۔ جس چیز کا حق قانون ہمیں دیتا ہے، اس سلسلے میں ہم لوگ کسی سے نہیں ڈرتے اور غیر قانونی کام ہم لوگ جان بوجھ کر ہرگز نہیں کرتے۔ بھول میں ہو جائے تو اس کی تلافی کی کوشش کرتے ہیں اور جہاں تک لالچ دے کر یا ڈرا کر مذہب بدلوانے کی بات ہے، یہ بالکل غیر قانونی ہے۔(جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment