حضرت ادہم کا خوف الہی

ایک مرتبہ حضرت ابراہیم بن ادہمؒ کے والد حضرت ادہمؒ کا بخارا کے باغات کی طرف سے گزر ہوا۔ آپ ایک نہر کے کنارے (جو باغات کے اندر سے ہوتی ہوئی گزرتی تھی) بیٹھ کر وضو کرنے لگے۔ آپ نے دیکھا کہ نہر کے اندر ایک سیب بہتا ہوا آرہا ہے۔ خیال کیا کہ اس کے کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ چنانچہ سیب اٹھا کر کھا لیا، جب سیب کھا چکے تو دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ میں نے سیب کے مالک سے اجازت نہیں لی اور میرا یہ کھانا ناجائز ہے۔
اس خیال سے باغ کے مالک کے پاس گئے اور جا کر اسے اس امر کی اطلاع دی تاکہ اس کی اجازت سے حلال و مباح ہو جائے۔ چنانچہ باغ کے دروازے پر دستک دی، جہاں سے یہ سیب آیا تھا، آواز سن کر ایک لڑکی باہر آئی، آپ نے اس سے کہا کہ میں باغ کے مالک سے ملنا چاہتا ہوں، اسے بھیج دیجئے، اس نے عرض کیا کہ وہ عورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اچھا اسے پوچھو کہ میں خود حاضر ہوجاؤں، چنانچہ اجازت مل گئی اور آپ اس خاتون کے پاس تشریف لے گئے اور سارا واقعہ اس کو سنایا۔ خاتون نے جواب دیا کہ باغ نصف حصہ میرا ہے اور نصف حصہ سلطان کا ہے۔ میں نے اپنے حصے کا سیب معاف کر دیا اور سلطان یہاں نہیں ہیں، بلخ تشریف لئے گئے ہیں، جو بخارا سے دس دن کی مسافت پر ہے۔ چنانچہ اس نے اپنا سیب کا نصف حصہ تو آپ کو معاف کردیا، اب باقی رہا دوسرا نصف حصہ اب اسے معاف کروانے کے لئے بلخ تشریف لے گئے۔
جب وہاں پہنچے تو بادشاہ کی سواری جلوس کے ساتھ جا رہی تھی، اسی حالت میں آپ نے سارے واقعہ کی بادشاہ کو خبر کر دی اور نصف حصہ سیب کے معاف کرانے پر طالب ہوئے۔ بادشاہ نے فرمایا اس وقت تو میں کچھ نہیں کہتا، کل میرے پاس تشریف لے آئیں۔ میں اس وقت کچھ کہہ دوں گا۔ بادشاہ کی ایک نہایت ہی خوبصورت حسین وجمیل بیٹی تھی اور بہت سے شہزادوں کی طرف سے پیغام نکاح اس کے لئے آچکے تھے، لیکن اس شہزادی کا باپ یعنی بادشاہ انکار کردیا کرتا تھا، کیوں کہ بیٹی عبادت گزار اور نیک کاروں کو بہت پسند کرتی تھیں، اس لئے اس کی یہ خواہش تھی کہ دنیا کے کسی مشہور زاہد سے ان کا نکاح ہو۔
جب بادشاہ محل میں واپس آیا تو اپنی لڑکی سے ادہمؒ کا سارا واقعہ بیان کیا اور کہا کہ میں نے ایسا شخص نہیں دیکھا کہ صرف نصف سیب حلال کرانے کے لئے بخارا سے یہاں بلخ آیا ہے۔ جب لڑکی نے یہ کیفیت سنی تو نکاح منظور کرلیا، چنانچہ حضرت ادہمؒ دوسرے دن بادشاہ کے پاس آیا تو بادشاہ نے ان سے کہا کہ جب تک آپ میری بیٹی کے ساتھ نکاح نہیں کریں گے، آپ کو نصف سیب معاف نہیںکروںگا۔
حضرت ادہمؒ نے کمال انکار کے بعد نکاح قبول کرلیا، چنانچہ بادشاہ نے اپنی لڑکی کا نکاح ادہم سے کرا دیا، جب حضرت ادہمؒ خلوت میں اپنی بیوی کے پاس گئے تو دیکھا کہ لڑکی نہایت آراستہ و پیراستہ ہے اور وہ مکان بھی جہاں لڑکی تھی تکلفات کے ساتھ مزین ہے۔ حضرت ادہمؒ ایک گوشہ میں جاکر نماز میں مصروف ہوگئے، حتیٰ کہ اس حالت میں صبح ہوگئی اور متواتر سات راتیں اسی طرح گزر گئیں اور اب تک بادشاہ نے سیب کا نصف حصہ معاف نہیں کیا تھا۔ آپ نے بادشاہ کو یاد دہانی کرانے کے لئے یہ کہا کہ اب وہ حصہ معاف فرما دیجئے۔ بادشاہ نے کہا کہ جب تک آپ کا میری لڑکی یعنی اپنی بیوی کے پاس گزاریں گے، میں معاف نہیں کروں گا۔ آخرکار شب ہوئی اور حضرت ادہمؒ بیوی کے ساتھ رات گزارنے پر مجبور ہوئے، اس کے بعد آپ نے طہارت حاصل کرکے نماز پڑھی، ایک چیخ ماری اور مصلے پر گر پڑے۔ لوگوں نے دیکھا تو حضرت ادہمؒ انتقال کر چکے تھے۔ بعد ازاں اس لڑکی کے بطن سے ادہمؒ کا ایک لڑکا پیدا ہوا اور وہ ابراہیمؒ بن ادہم تھا (چونکہ حضرت ابراہیم کے نانا بادشاہ کے پاس کوئی لڑکا نہ تھا، اسی وجہ سے بادشاہ کے بعد سلطنت حضرت ابراہیمؒ بن ادہمؒ کو ملی، آپؒ کے سلطنت چھوڑنے کا واقعہ مشہور ہے اور اس کی اصل بھی یہی ہے)۔ (سفر ابن بطوطہ بحوالہ بکھرتے موتی جلد 1)

Comments (0)
Add Comment