سرفروش

قسط نمبر144
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
مجھے علم تھا کہ بشن دیپ نے اپنے باپ کو اس لیے برتھ پر سونے کے لیے بھیجا ہے کہ وہ مجھے سکھوں کے وطن یعنی خالصتان کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرنے کے لیے بے چین ہے۔ مجھے خود بھی اس موضوع میں گہری دلچسپی تھی۔ تاہم میں اس حوالے سے غیر ضروری اشتیاق ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ میں بشن دیپ سے اس کے بچوں کی ذہانت اور خوش مزاجی کے بارے میں باتیں کرنے لگا اور مانو کے لیے خصوصاً محبت بھرے جذبات کا اظہار کیا۔ وہ میری باتیں سن کر خوش ہوگیا۔
یہ سب اس کی گھر والی یعنی امرتا بھی بغور سن رہی تھی اور اس کے چہرے سے مسرت عیاں تھی۔ وہ اب تک مجھ سے براہ راست مخاطب ہونے سے گریز کرتی رہی تھی۔ لیکن اپنے سپوت کے لیے میری زبان سے من موہنے الفاظ سن کر اس نے بیگانگی یا تجاہلِ عارفانہ ترک کر دیا اور مجھے بتایا کہ اپنی ایسی ہی میٹھی میٹھی باتوں کی وجہ سے مانو گھر بھرکا لاڈلا اور خصوصاً اپنے تایا امرت دیپ کی آنکھ کا تارہ ہے۔ جو اس سے ملنے کے لیے بے تابی سے انتظار کر رہا ہوگا۔ اس پر بشن دیپ نے بیوی کو ٹوکا کہ اس کا ’’امر بھائیا‘‘ باقی بھتیجے بھتیجیوں کو بھی دل و جان سے چاہتا ہے۔
اس موقع پر میں نے کہا۔ ’’مانو نے بتایا ہے کہ امر دیپ جی نے شادی نہیں کی۔ مجھے یہ سن کر حیرت ہوئی۔ اگر برا نہ لگے تو پوچھ سکتا ہوں کہ کیا وہ برہمچاریہ پر یقین رکھتے ہیں یا اب تک شادی نہ کرنے کی کوئی اور وجہ ہے؟‘‘۔
بشن دیپ نے ایک نظر اپنی بیوی پر ڈالی اور پھر اداس لہجے میں کہا۔ ’’نہیں بھائی، برہم چاریہ تو ہندو دھرم میں ہوتا ہے۔ ہمارا اس سے کیا تعلق ہے۔ امر دیپ بھائیا تو ایک ذاتی سانحے کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے شادی سے منکر ہو چکے ہیں۔ اب تو ہم نے انہیں سمجھانے کی کوشش بھی چھوڑ دی ہے‘‘۔
میں نے اس ذاتی معاملے کی حساسیت بھانپتے ہوئے مزید استفسار مناسب نہیں سمجھا۔ لیکن قدرے توقف کے بعد بشن دیپ نے خود ہی بات آگے بڑھائی۔ ’’دراصل امر دیپ بھائیا جوانی میں اپنی ہی برادری کی ایک مٹیار جوہی سے محبت کرتے تھے۔ وہ بھی انہیں دل و جان سے چاہتی تھی۔ لیکن ہمارے خاندانوں میں پرانی رنجش تھی۔ امر دیپ بھائیا کی خاطر میرے باپ نے سب اختلافات فراموش کر کے رشتہ مانگا، لیکن صاف انکار ہوگیا۔ پھر جوہی کی کہیں اور شادی ہوگئی۔ لیکن سات ماہ بعد ہی وہ بیمار ہوکر واہگورو کے پاس چلی گئی۔ اس دن کے بعد سے بھائیا نے بھی ایک طرح سے زندگی سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا‘‘۔
یہ سب بتاتے ہوئے بشن دیپ کی آواز بھراگئی تھی۔ امرتا کے چہرے پر بھی اداسی کھنڈنے لگی تھی۔ چنانچہ میں نے وہ موضوع وہیں چھوڑکر خاموشی اختیار کرلی۔ مجھے افسوس ہو رہا تھا کہ میں نے کھوج لگانے کے لیے یہ کہانی کیوں چھیڑی۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بشن دیپ نے موضوع بدل کر اپنے کاروبار کے بارے میں گفتگو شروع کر دی کہ کیسے وہ لوگ پہلے اپنے کھیتوں پر اگائی عمدہ قسم کی دھان معمولی قیمت پر فروخت کرتے تھے۔ پھر اس نے رفتہ رفتہ آڑھت کا کام سیکھا اور پہلے پٹیالا اور دلّی اور بالآخر بمبئی میں چاولوں کی تجارت شروع کی اور اب وہ بڑے پیمانے پر کاروبار کر رہا ہے اور بیرون ملک چاول برآمد کرنے کی جانب بھی پیش قدمی کر رہا ہے۔
پھر اس نے گہرے سنجیدہ لہجے میں بات اپنے پسندیدہ موضوع کی طرف بڑھائی۔ ’’میرے والد سمیت ہمارے بہت سے ہم قوم ابھی تک سمجھ نہیں پا رہے کہ ہندو اکثریت کس بری طرح ہمارا استحصال کر رہی ہے۔ ہماری اجناس، حتیٰ کہ پھل اور سبزیوں کی منڈیوں پر بھی ہندو بنیوں کا قبضہ ہے۔ ہمارے سردار بھائی اپنی فصلیں کاشت کرنے کے لیے بھی ان بنیوں سے قرض لینے پر مجبور ہیں اور ان میں سے اکثر کی آدھی سے زیادہ فصل کٹنے سے پہلے ہی ان بنیوں کے قبضے میں چلی جاتی ہے۔ سکھوں کی سرزمین سمجھے جانے والی پنجاب کی دھرتی پر نہایت چالاکی سے ہندو بساکر سکھوں کو بالآخر اقلیت میں بدلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ہندو سیٹھ یہاں آکر زرعی رقبے خرید رہے ہیں۔ ہمارے ہی سردار بھائی کھیت مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں اور سونا اگلتی دھرتی سے حاصل ہونے والی ساری دولت ہندو سیٹھ کے حصے میں آتی ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’تو اب اس صورتِ حال کو درست کرنے کے لیے آپ لوگ کیا کر رہے ہیں؟‘‘۔
بشن دیپ نے قدرے مایوسی کے ساتھ کہا۔ ’’بدقسمتی سے ہمارے ان نظریات اور احساسِ محرومی کو سمجھنے اور تسلیم کرنے والوں کی تعداد خود ہماری قوم میں بھی بہت زیادہ نہیں ہے۔ لیکن ہمارے ہم خیالوں کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے۔ خصوصاً ہندوستان کے دستور میںآرٹیکل پچیس کی شمولیت کے بعد سے تو ہندوؤں کی سازش بہت سے سکھوں پر واضح ہوگئی ہے‘‘۔
میں نے پوچھا۔ ’’اس آرٹیکل میں کیا خاص بات ہے؟‘‘۔
اس نے کچھ لمحے سوچ کر کہا۔ ’’یہ آرٹیکل سکھ دھرم کے ہندوستان میں خاتمے کی طرف ہندو تعصب پسندوں کا ایک اہم قدم اور مستقبل کی جھلک ہے۔ مختصراً یوں سمجھ لیں کہ دو اڑھائی سال پہلے منظور ہونے والے اس قانون میں سکھ دھرم کو ہندو دھرم کی ہی ایک شاخ بتایا گیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سکھ دھرم تو ہندو دھرم سے بالکل الٹ ہے۔ کیونکہ ہمارے دھرم کی تو بنیاد ہی واحد اور یکتا رب کے تصور پر رکھی گئی ہے۔ جبکہ ہندو تو کتنے ہی دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’یہ آرٹیکل تو واقعی سکھ دھرم کے لیے تباہ کن ہے۔ اگر انفرادی پہچان ختم ہوگئی تو یہ دھرم بالآخر صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا‘‘۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment