اثاثہ ریکوری یونٹ میں متنازع افسر کو شامل کرلیا گیا

عمران خان
وزیر اعظم پاکستان کے خصوصی ’’اثاثہ ریکوری یونٹ‘‘ میں ایف آئی اے کی نمائندگی کیلئے متنازع آفیسر کو شامل کرلیا گیا ہے۔ ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر رضوان پر پاکستان کے پہلے انتہائی مطلوب سائبر کرمنل سمیت دیگر ملزمان کو معاونت فراہم کرنے کے الزامات ہیں۔ جبکہ ایف آئی اے کے 16 افسران ڈاکٹر رضوان کے ساتھ کام کرنے سے انکار کرچکے ہیں۔ ذرائع کے بقول گزشتہ روز وفاقی حکومت کی جانب سے اثاثوں کے ریکوری یونٹ کیلئے 5 میں سے 3 ارکان کے نام فائنل کئے گئے۔ ابتدائی تین ناموں میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر، نیب کے ڈائریکٹر عرفان منگی کے علاوہ ایف آئی اے کی طرف سے ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر رضوان شامل ہیں۔ ذرائع کے بقول ایسٹ ریکوری یونٹ میں نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔ تاہم ابھی یونٹ میں ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کے نمائندوں کے نام شامل ہونا باقی ہیں۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر یونٹ کے سربراہ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ذرائع سے ملنے والی دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ ایسٹ ریکوری یونٹ یعنی اثاثہ ریکوری یونٹ میں ممبر کی حیثیت سے شامل کئے جانے والے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر رضوان لاہور میں ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے انچارج کے طور پر امور انجام دے رہے ہیں، جن کے خلاف ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل لاہور کے 16 تفتیشی افسران نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن کو ایک لیٹر ارسال کر رکھا ہے، جس میں ڈاکٹر رضوان پر سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ موصولہ دستاویزات کے مطابق لاہور کے 16 افسران نے اپنے ناموں اور دستخط کے ساتھ اعلیٰ حکام کو ارسال کئے جانے والے لیٹر میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر رضوان نے سائبر کرائم کے ایک کیس میں مدعی کو بلانے کے بعد ملزم کو بھی اپنے کمرے میں بلایا اور پہلے وہ مدعی کو راضی کرتے رہے کہ وہ ملزم سے صلح کرلے اور مقدمے میں نہ پڑے۔ مگر جب مدعی کی جانب سے رضامندی ظاہر نہیں کی گئی تو انہوں نے غصے میں ماتحت افسران کو بلاکر کہا کہ اس کے کہنے پر کوئی کارروائی نہیں کی جائے۔ اس کے علاوہ افسران نے لیٹر میں یہ بھی لکھا ہے کہ گلگت بلتستان میں ڈی آئی جی کرائم برانچ رہنے والے پولیس افسر سید جنید ارشد کو سپریم کورٹ نے ان کی سابق اہلیہ کو بلیک میل کرنے پر گرفتار کرنے کی ہدایات دی تھیں، جس کے بعد انہیں گرفتار کرنے کیلئے ایف آئی اے افسران کی میٹنگ بلائی گئی۔ اس میں سائبرکرائم کے افسران کو بھی بلایا گیا، تاہم دوران میٹنگ ڈاکٹر رضون نے سائبر کرائم کے افسران کو میٹنگ چھوڑ کر واپس آنے کے احکامات بھیجے، جس پر یہ افسران واپس آگئے۔ ایف آئی اے ذرائع کے بقول سید جنید ارشد جو کہ پولیس کے ایس ایس پی ہیں، کو سابق اہلیہ کو بلیک میل کرنے کے کیس میں ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کی جانب سے عدالتی احکامات کے بعد پاکستان کا پہلا ’’موسٹ وانٹڈ‘‘ یعنی انتہائی مطلوب ملزم قرار دیا گیا ہے۔ بلکہ ان کی تصویر انتہائی مطلوب ملزمان کی فہرست میں شامل کرکے ایف آئی اے کی ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کی گئی ہے۔
دستاویزات سے مزید معلوم ہوا ہے کہ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے ڈاکٹر رضوان کے رویے کی وجہ سے ایف آئی اے میں کام کرنے والے 16 افسران نے اعلیٰ حکام کو آگاہ کیا ہے کہ وہ ایسی صورتحال میں کام جاری نہیں رکھ سکتے۔ واضح رہے کہ رواں ہفتے میں دوسرا بڑا واقعہ پیش آیا ہے، جس میں ایف آئی اے کے اپنے ہی افسران نے اپنے ادارے کے افسر پر سنگین الزامات عائد کئے ہیں اور تحریری شکایت کی گئی ہے۔ اس سے قبل سابق ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے گجرات سرکل ساجد مصطفی باجوہ نے بھی ڈائریکٹر ایف آئی اے پنجاب وقار عباسی پر 200 انکوائریاں اور ہنڈی حوالہ کا کام کرنے والوں کی لسٹیں دبانے کی شکایت کی تھی، جس پر ان کا تبادلہ اسلام آباد ہیڈ کوارٹر کردیا گیا تھا۔ ذرائع کے بقول ڈاکٹر رضوان پر عائد کئے جانے والے سنگین الزامات کے بعد بھی اسلام آباد ہیڈ کوارٹر سے ایک افسر لاہور روانہ کیا گیا۔ تاہم اسی دوران ان کا نام اثاثہ ریکوری یونٹ میں ایف آئی اے کی نمائندگی کیلئے یونٹ کے ممبر کے طور پر سامنے آیا ہے۔
ذرائع کے بقول اثاثہ ریکوری یونٹ بہت اہمیت کا حاصل ہے، جس کے تحت پاکستان پوری دنیا میں اپنے شہریوں کی چھپائی گئی اربوں ڈالر کی دولت اور اثاثوں کی ریکوری کیلئے عالمی بینک اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسداد منشیات و جرائم کے عالمی پروگرام سے استفادہ کر سکتا ہے۔ اس کیلئے پاکستان کو شواہد کے ذریعے ثابت کرنا پڑے گا کہ مختلف ممالک میں پاکستانیوں کے اکائونٹس میں پڑا پیسہ جرائم سے کمایا گیا یا منشیات کے ذریعے بنایا گیا، جس کے بعد ریکوری کیلئے عالمی بینک اور اقوام متحدہ چوری کئے گئے اثاثوں کی ریکوری کے عالمی پروگرام کے تحت کارروائی آگے بڑھا سکتا ہے۔ اس کیلئے عالمی سطح پر ’’اسٹولن ایسٹ ریکوری انیشی ایٹو‘‘ کے نام سے ایک ادارہ موجود ہے۔ اس معاہدے کے تحت یہ یونٹ بڑے جرائم پیشہ افراد کے خلاف ثبوت اقوام متحدہ اور عالمی بینک کو فراہم کر کے ان کے بیرون ملک اثاثے ضبط کروانے کا اختیار رکھتا ہے۔ تاہم یہ ایک پیچیدہ اور وقت طلب کام ہے۔
پروگرام کے تحت یونٹ کی جانب سے بیرون ملک 10 ہزار سے زائد جائیدادوں کا سراغ لگایا جا چکا ہے۔ یہ ریکارڈ ایف آئی اے، ایف بی آر اور دیگر متعلقہ اداروں فراہم کرکے ریکوری کیلئے کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ جبکہ اسی یونٹ کے تحت اثاثوں کی واپسی کیلئے ٹاسک فورس کے ارکان کا انتخاب بھی کرلیا گیا ہے جبکہ یونٹ کے تحت کئی ممالک کے ساتھ ہنڈی حوالہ پر بھی معاملات کو آگے بڑھایا جا رہا ہے، جس میں متحدہ عرب امارات سر فہرست ہے۔ ذرائع کے بقول ریکوری یونٹ کے تحت دبئی، چین، برطانیہ اور امریکا سے بھی معلومات کے تبادلے کے معاہدے پر بات چیت کی جا رہی ہے۔

Comments (0)
Add Comment