انٹرنیشنل ختم نبوت کے مدرسے کے خلاف بغیر نوٹس ایکشن لیا گیا

عظمت علی رحمانی
چنیوٹ کی ضلعی انتظامیہ نے نوٹس دیئے بغیر انٹرنیشنل ختم نبوت کے مدرسے کیخلاف انسداد تجاوزات کے تحت ایکشن لیا۔ تاہم ہزاروں افراد کے احتجاج کے باعث جامعہ عربیہ چنیوٹ کو جزوی طور پر ہی منہدم کیا جا سکا۔ جبکہ عوامی غم و غصہ دیکھتے ہوئے ضلعی انتظامیہ نے گرائے گئے کمرے اور دیوار کی تعمیرِ نو کرنے کی یقین دہانی بھی کرا دی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل قائم مذکورہ مدرسے سے فارغ التحصیل ہزاروں فضلا ملک بھر میں دین کی خدمت میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب مدرسہ جامعہ عربیہ چنیوٹ مقامی قادیانیوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔
چنیوٹ شہر میں ڈی سی آفس کے سامنے واقع جامعہ عربیہ چنیوٹ کا قیام 1946ء میں ہوا تھا، جہاں شروع میں قاری مشتاق بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد مقامی شیخ برادری نے سرگودھا سے مولانا منظور احمد چنیوٹی کو خصوصی طور پر اس مدرسے کو چلانے کیلئے بلایا۔ 1954ء سے 2004ء تک مولانا منظور احمد چنیوٹی اس مدرسے کے ناظم و مہتمم رہے۔ ان کے بعد اس مدرسے کا انتظام مولانا الیاس چنیوٹی کے ذمے آگیا۔ مدرسہ عربیہ چنیوٹ میں برسوں تک فاضل عربی کا کورس کرایا جاتا رہا۔ 1966ء سے وفاق المدارس کے تحت دورہ حدیث شروع کیا گیا۔ مدرسے میں حفظ و ناظرہ اور شعبہ کتب میں لگ بھگ ڈھائی سو سے 3 سو طلبا اور ساڑھے 3 سو طالبات زیر تعلیم ہیں۔ مذکورہ مدرسے کی زمین 1946ء میں شیخ برادری نے وقف کی تھی۔ تاہم شیخ برادری کی مذکورہ شاخ، قیام پاکستان کے بعد کراچی آگئی، جس کے بعد ان کی چھوڑی گئی زمینیں حکومت نے 1968ء میں سرکاری تحویل میں لے لی تھیں۔
جامعہ عربیہ چنیوٹ کے مہتمم اور انٹرنیشنل ختم نبوت کے امیر مولانا الیاس چنیوٹی مسلسل تیسری بار مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ سے حلقہ پی پی 94 سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق مولانا الیاس چنیوٹی کا تعلق نون لیگ سے ہونے کی وجہ سے انتظامیہ کی جانب سے ڈپٹی کمشنر چنیوٹ پر دباؤ بڑھایا گیا کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن کے تحت مدرسے سے بھی زمین واگزار کرائی جائے۔ تاہم ڈپٹی کمشنر نے اس سلسلے میں اسسٹنٹ کشمنر کے ذریعے معلومات کرائیں کہ واقعی مدرسہ منتطمین کی جانب سے سرکاری زمین پر قبضہ کیا گیا ہے یا نہیں؟ جس کے بعد اسسٹنٹ کمشنر نے پٹواریوں اور محکمہ ریونیو کے دیگر افسران کی معاونت سے جگہ کی پیمائش کرائی، جس میں معلوم ہوا کہ سرکاری اراضی کا کل رقبہ 26 کنال ہے، جس میں سے 19 کنال اور ایک مرلہ زمین پر قبرستان واقع ہے۔ جبکہ 6 کنال سے زائد زمین پر ایک عمارت اور گراؤنڈ تعمیر ہے۔ تاہم مدرسہ کی کوئی بھی جگہ اس سرکاری جگہ سے منسلک نہیں ہے۔ مدرسہ منتظمین کی جانب سے اسسٹنٹ کمشنر آصف اقبال چوہان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ مدرسے کی عمارت کو نہیں چھیڑا جائے گا۔
تاہم ڈپٹی کمشنر کو گمراہ کن معلومات دینے والے بعض افسران نے بتایا کہ مدرسے کے ساتھ ہوٹل اور اس کے کمرے مذکورہ 26 کنال اراضی کے ساتھ ہی ہیں، جس کے بعد ڈپٹی کمشنر نے مدرسہ منتظمین کو بغیر نوٹس دیئے رات کو 8 بجے بھاری مشنری کے ساتھ مدرسے پر چڑھائی شروع کرادی۔ مذکورہ واقعے کی خبر سوشل میڈیا پر پھیلی اور یوں ہزاروں افراد جمع ہو گئے، جن کے احتجاج کے بعد آپریشن کو روک دیا گیا۔
اس حوالے سے مدرسہ کے استاد مولانا ضیاء الحق چنیوٹی کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’میرے والد کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے ہیں، اس لئے ہمارے خلاف اس قسم کا پروپیگنڈا کیا گیا ہے کہ ایک مسلم لیگی ایم پی اے نے حکومت کی ساڑھے 4 ارب روپے مالیت کی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ تاہم ایسا کچھ بھی نہیں‘‘۔
جبکہ مولانا بدر عالم چینوٹی کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے احتجاج کے بعد ڈپٹی کمشنر خضر افضال چوہدری کی جانب سے مذاکرات کئے گئے اور کہا گیا کہ غلطی سے آپ کا کمرہ گرایا گیا ہے اور ہم اپنے خرچے پر اس کی تعمیر کر کے دیں گے‘‘۔ ادھر مذکورہ واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر زبردست بحث جاری ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کے مطابق مذکورہ مدرسے کو متنازعہ اس لئے بنایا گیا ہے کہ یہ چنیوٹ میں انٹرنیشنل ختم نبوت کا مرکز ہے۔ اس لئے قادیانیوں کو یہ مدرسہ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ دوسری جانب چنیوٹ کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ یہ پوری دنیا میں چنیوٹ کی پہچان بننے والے قدیم مدرسے کیخلاف گھنائونی سازش ہے، جس کا مقصد قادیانی لابی کی خوشنودی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس حوالے سے وفاق المدارس العربیہ پاکستان جنوبی پنجاب کے ناظم و جامعہ فاروقیہ شجاع آباد کے مہتمم مولانا زبیر احمد صدیقی کا کہنا تھا کہ ’’تجاوزات کی آڑ میں مساجد و مدارس کے خلاف کاروائی برداشت نہیں کی جائے گی‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment