خلاصہ تفسیر
(آگے تاکید وقوع حساب کے لئے یہ بتلاتے ہیں کہ اس وقت یہ بھی احتمال نہیں کہ کوئی کہیں بچ کر نکل جائے، چنانچہ ارشاد ہے کہ) اے گروہ جن اور انسانوں کے، اگر تم کو یہ قدرت ہے کہ آسمان اور زمین کی حدود سے کہیں باہر نکل جاؤ تو (ہم بھی دیکھیں) نکلو (مگر) بدون زور کے نہیں نکل سکتے (اور زور ہے نہیں، پس نکلنے کا وقوع بھی ممکن نہیں اور یہی حالت بعینہٖ قیامت میں ہوگی، بلکہ وہاں تو یہاں سے بھی زیادہ عجز ہوگا، غرض بھاگ نکلنے کا احتمال نہ رہا اور یہ بات بتلا دینا بھی موجب ہدایت و نعمت عظمیٰ ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے ) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہو جاؤ گے؟ (آگے بوقت عذاب انسان کے عجز کا ذکر فرماتے ہیں ، جیسا اوپر حساب کے وقت اس کے عاجز ہونے کا ذکر تھا، یعنی اے جن و انس کے مجرمو!) تم دونوں پر (قیامت کے روز) آگ کا شعلہ اور دھواں چھوڑا جائے گا پھر تم (اس کو) ہٹا نہ سکو گے (یہ شعلہ اور دھواں غالباً وہ ہے جن کا ذکر سورۃ المرسلٰت میں ہے اور اس کا بتلانا بھی وجہ ذریعہ ہدایت ہونے کے ایک نعمت عظمیٰ ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہو جاؤ گے؟ غرض (جب ہمارا حساب لینا اور تمہارا حساب و عقاب کے وقت عاجز ہونا معلوم ہوگیا تو اس سے قیامت کے روز حساب و عقاب کا وقوع ثابت ہوگیا، جس کا بیان یہ ہے کہ) جب (قیامت آوے گی جس میں) آسمان پھٹ جاوے گا اور ایسا سرخ ہو جاوے گا جیسے سرخ نری (یعنی چمڑا، شاید یہ رنگ اس لئے ہو کہ علامت غضب کی ہے کہ غضب میں چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور یہ آسمان کا پھٹنا وہ ہے جو شروع پارہ میں آیا ہے اور یہ خبر دینا بھی نعمت ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہو جاؤ گے؟ (یہ تو حساب کا وقوع اور اس کا وقت بتلایا گیا آگے کیفیت حساب و طریق فیصلہ ارشاد فرماتے ہیں) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭