شہید کی ماں کا ایمانی جذبہ

میدان جہاد کی طرف سے شوق بڑھنے کے سلسلے میں علامہ ابن نحاسؒ نے اپنی کتاب مشارع الاشواق میں ایک عجیب قصہ ذکر کیا ہے، جو عبرتوں اور شوق جہاد و شوق شہادت سے پر ہے۔
فرمایا کہ: شہر بصرہ میں شوق جہاد اور عبادت کے جذبے میں عورتیں مشہور تھیں۔ ان میں سے ایک عورت ام ابراہیم ہاشمیہ بھی تھیں۔ دشمن نے اس وقت مسلمانوں کی سرحدات میں سے کسی سرحد پر حملہ کر دیا۔ مسلمانوں کو جہاد پر ابھارنے اور شوق جہاد دلانے کے لئے ایک مہم شروع ہوئی۔ انہیں ترغیبی خطبات میں شیخ عبد الواحد بن زید بصریؒ نے لوگوں کو جہاد پر ابھارا اور شوق دلایا۔ اس مجلس وعظ میں ام ابراہیم بھی حاضر تھیں۔
شیخ عبد الواحد نے اپنی تقریر کے دوران مجاہدین اور شہداء کے لئے جنت کی نعمتوں میں حوروں کا تذکرہ بھی کیا۔ اس موثر تذکرہ میں انہوں نے حوروں کے حسن و جمال، عظمت و کمال پر ایک قصیدہ بھی پڑھا، جس سے لوگ جنونی حد تک جذباتی ہو گئے اور مجمع میں شوق شہادت کا ایک زلزلہ برپا ہو گیا۔ مجمع میں ام ابراہیم کود پڑیں اور شیخ عبد الواحد سے کہنے لگیں:
اے ابو عبید! آپ کو خوب معلوم ہے کہ بصرہ کے بڑے بڑے رئیس میرے بیٹے ابراہیم کو اپنی بیٹیوں کا پیغام نکاح دے چکے ہیں، لیکن میں نے ابراہیم کے لئے کسی پیغام کو قبول نہیں کیا۔ لیکن آپ نے جس لڑکی اور حور کا تذکرہ کیا ہے، اس نے تو مجھے تعجب میں ڈال دیا ہے، اب میں اپنے بیٹے ابراہیم کی شادی اسی لڑکی سے کرائوں گی، مگر آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس کے حسن و جمال اور عظمت و کمال کو ذرا پھر دہرا لیجئے۔
شیخ عبد الواحد نے حور کی صفت میں پھر ایک قصیدہ پڑھا، جس کے چند اشعار کا ترجمہ یہ ہے :
’’روشنیوں کی بنیاد اس حور کے روشن چہرے سے پڑی ہے اور اس کے خالص عطر کی آمیزش تمام خوشبوئوں میں آئی ہے۔‘‘ ’’اگر یہ حور اپنے جوتے سے ریت کو بھی روند ڈالے، تو بغیر بارش تمام اطراف گھاس سے ہرے بھرے ہو جائیں گے۔‘‘ ’’اگر یہ حور اپنے شہد جیسے لعاب کو سمندر میں تھوک دے، تو خشکی کی تمام مخلوق کے لئے سمندر کا پانی میٹھا ہو جائے گا۔‘‘ ’’اس کے رخسار پر جب کسی کی نگاہ پڑتی ہے، تو قریب ہے کہ دل کے خیالی تصور کی وجہ سے یہ نگاہ رخسار میں زخم کر دے۔‘‘
ان اشعار کو سن کر اس دفعہ تو لوگ تڑپ اٹھے اور ام ابراہیم پھر سامنے آئیں اور شیخ عبدالواحد سے کہنے لگیں:
اے ابو عبید! اس لڑکی کی جمال آراء نے مجھے حیرت میں ڈال دیا ہے۔ میں اپنے بیٹے کے لئے اس لڑکی کو بطور دلہن پسند کرتی ہوں تو کیا آپ یہ کر سکتے ہیں کہ اس لڑکی کا نکاح میرے بیٹے سے کرا دیں اور مہر مجھ سے دس ہزار دینار قبول کر لیں ؟ پھر میرا لخت جگر آپ کے ساتھ اس جہاد میں چلا جائے گا، شاید کہ حق تعالیٰ میرے بیٹے کو شہادت کے عالی رتبہ سے نواز دے اور یہ لڑکا اپنے والد اور میرے لئے قیامت کے روز شفاعت کرنے والا بن جائے۔
شیخ عبد الواحد نے فرمایا کہ اگر آپ نے ایسا کیا تو یقیناً آپ کا لڑکا اور لڑکے کا باپ کامیاب ہو جائیں گے، اس کے بعد ام ابراہیم نے اپنے لخت جگر کو آواز دے کر فرمایا کہ اے پیارے بیٹے! کیا آپ کو مذکورہ صفت سے متصف یہ لڑکی اس شرط پر قبول ہے کہ اس کے مہر کے عوض خدا کے راستے جہاد میں اس کے لئے جان دے دو گے اور آئندہ کوئی گناہ نہیں کرو گے ؟
نوجوان ابراہیم نے کہا کہ امی جان! قسم بخدا میں اس پر بہت خوش ہوں اس کے بعد لڑکے کی والدہ نے خدا کے سامنے یہ دعا مانگی : اے مولائے کریم! میں تجھے گواہ بناتی ہوں کہ میں نے اپنے لڑکے کا نکاح اس حور سے کیا، اس شرط پر کہ میرا لڑکا اپنی جان کو تیرے راستے میں قربان کر دے گا، اے الرحم الراحمین ! میرے اس لخت جگر کو میری طرف سے قبول فرما۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment