موت کے سفر سے واپسی

اچانک ہی سرکش ہوائیں چلنے لگیں، جنہوں نے سمندر کو جو تھوڑی دیر پہلے دودھ کی طرح پرسکون تھا بھڑکا دیا، موجیں غضب ناک ہو گئیں اور ان کی بلندی میں اضافہ ہو گیا۔ یہاں تک کہ یہ حالت اس کشتی کو غرق کرنے کا سبب بنی، جو اپنی پشت پر چار افراد کو لیے ہوئے تھی اور جو ایک پرجوش تفریح سے لطف اندوز ہو رہے تھے، لیکن وہ ہوا، جس کا گمان بھی نہیں تھا، ہوا ایسی تیزی کے ساتھ آئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پوری کشتی کو الٹ دیا، بغیر اس کے کہ کوئی ان کی دردناک پکار پر ان کی اس حالت میں مدد کرتا جس میں وہ سمندر، غضب ناک موجوں، ہوائوں اور مچھلیوں کے پورے بیس گھنٹے قیدی رہے، اس حال میں کہ خوف اور اعصاب شکن اندیشے ان کو نڈھال کررہے تھے۔
یہ حادثہ فریا نامی کشتی کو اس وقت پیش آیا، جب اس میں سوار چار افراد جن میں سے دو امریکی تھے اور دو سعودی۔ شکار کے اس منحوس سفر میں ینبع کے تفتیشی اور حفاظتی مرکز سے گھاٹی قیصر کی طرف جا رہے تھے۔ یہ ایک گہرا علاقہ ہے، جس میں شکار کھیلنا جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ ان چاروں ڈوبنے والوں نے جان لیا کہ الٹی ہوئی کشتی کو مضبوطی سے پکڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، کیونکہ اب پوری طرح سمندر میں موجیں انہیں پٹخ رہی تھیں۔
اب آیئے! ہم ان کی طرف کان لگا کر ان کے وہ جذبات سنتے ہیں، جو اس تنگ گھڑی میں ان کے تھے۔
چالیس سالہ امریکی ساتھی ریچرڈ ڈیلکون جو کہ بارامکو میں ایک تدریسی منصب پر فائز تھا، اس نے اس تلخ تجربے پر پہلی گواہی دی، جو ان چاروں کی موت کے درپے تھا تاکہ سمندری تخت ان کا زور و شور سے استقبال کرے۔
وہ کہتے ہیں: ’’11 شعبان 1410ھ کو جمعرات کی صبح میں نے اور میرے دوست مارٹی برمان امریکی نے جو بارامکو میں حفاظتی شعبے سے منسلک تھا، ہم دونوں نے شکار پر جانا طے کیا، جس میں، میں نے ایسے دو سعودی دوستوں زکی عبد الرحمن اور اس کے بھائی عماد کی میزبانی کی، جو ایک شادی کی محفل میں شرکت کرنے کے لیے ینبع پہنچے تھے۔ ہم نے مچھلی کے شکار اور سیر و تفریح کے لیے آٹھ گھنٹے سمندر میں گزارنے کا پختہ ارادہ کر لیا۔‘‘
ریچرڈ بات آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں:
’’گھاٹی قیصر پہنچنے کے بعد جس جگہ کو ہم نے شکار کے لیے منتخب کیا تھا، وہ چار پانچ میل دور تھی۔ دوپہر ایک بجے یعنی ہمارے سفر کے پانچ گھنٹے گزرنے کے بعد تند و تیز ہوائیں غضب ناک انداز میں نمودار ہوئیں، لیکن پھر بھی ہم نے سفر کو برقرار رکھا اور جس چیز نے اس سفر کو برقرار رکھا، وہ جنون کی ایک قسم تھی۔ اس وقت میں نے اپنے ساتھیوں کے سامنے واپس لوٹنے کی تجویز پیش کی، جبکہ ہم مچھلیوں کی ایک بڑی تعداد شکار کر چکے تھے، لیکن دوستوں نے میری تجویز منظور کرنے سے انکار کر دیا، جو کہ اس دردناک معاملے سے نکلنے کے لیے گویا پہلی کوشش تھی۔ ساتھیوں کی دلیل یہ تھی کہ وقت ابھی تک تفریح کے لیے سازگار ہے اور لوٹنے کے لیے مقررہ وقت ابھی ختم نہیں ہوا۔‘‘
موت کے سفر کی تفصیل:
مارٹی بومان نے بات مکمل کرتے ہوئے کہا:
’’دوپہر تین بجے ہوا میں تیزی آگئی، تاکہ موجیں جوش میں آجائیں اور ہمارے دل خوف سے بند کر دیں۔ اچانک ہی ایک سرکش لہر کشتی کی فائٹر گلاس والی سطح پر گری اور اسی وقت وہ الٹ گئی، جو کچھ اس میں تھا، وہ سب نیلے پانی میں گر گیا، گرنے والی چیزوں میں وہ مچھلیاں جو ہم نے شکار کی تھیں، حفاظتی اور شکار میں استعمال ہونے والے آلات، چپو اور بعض برتن تھے، یہاں تک کہ گاڑیوں کی چابیاں بھی سمندر کی گہرائی میں اپنے انجام کو جاپہنچیں۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment