سدھارتھ شری واستو
ریاست ہریانہ اور پنجاب میں کھیتوں سے فصلیں کٹ جانے کے بعد کسانوں نے صفائی اور اگلی فصل کیلئے کھیت تیار کرنے کی غرض سے وسیع و عریض رقبہ میں آگ لگا دی ہے، جس سے اُٹھنے والے کثیف دھویں نے دہلی والوں کا دم گھونٹ دیا ہے۔ دہلی شہر میں دھویں اور دھند کی وجہ سے حلق اور سانس کی بیماریاں پھیلنے لگیں۔ اسپتالوں میں مریضوں کی لائنیں لگ گئیں۔ لاکھوں افراد ماسک پہننے پر مجبور ہیں۔ عالمی نیوز ایجنسی روئٹرز کے ایک مقامی نمائندے نے ہریانہ اور پنجاب کے ایک درجن سے زائد علاقوں کا دورہ کیا ہے اور تصدیق کی ہے کہ فصل کٹ جانے کے بعد جگہ جگہ کھیتوں کو آگ لگائی جارہی ہے، جس سے علاقوں میں شدید دھواں پیدا ہوگیا ہے، جبکہ آگ کی تپش اور دھویں کی بو دہلی تک محسوس کی جارہی ہے۔ رائٹرز کی جانب سے اس سنگین ماحولیاتی مسئلے پر قابو پانے کی کوششوں کے بارے میں مرکزی وزارت ماحولیات دہلی، سینٹرل پلیوشن کنٹرول بورڈ اور ہریانہ کے ریاستی حکام سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو تینوں دفاتر میں کوئی جواب دینے والا نہیں تھا۔ البتہ پنجاب حکومت کے ایک ترجمان، گرکرت کرپال سنگھ نے اس ضمن میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ریاستی حکومت نے کسانوں کو کھیتوں میں آگ لگانے سے روکنے کی خاطر ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کردی ہے، لیکن چونکہ مرکزی حکومت اور وزارت ماحولیات دہلی کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی واضح پالیسی نہیں بنائی گئی ہے، لہذا کوئی ٹھوس قدم نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ ہریانہ کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا ہے کہ حکومت نے رعایتی قیمتوں پر 24 ہزار سے زائد پیڈی مشینیں علاقوں میں فروخت کیلئے رکھی ہیں، لیکن مناسب تشہیر نہ ہونے سے یہ فروخت نہیں ہوپائی ہیں۔ تاہم اگلے برس تک کھیتوں کو آگ لگانے کا عمل روکنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ دوسری جانب ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں کی انجمن ’’مزدور کسان سنگھرش مورچا‘‘ نے کہا ہے کہ کھیتوں کو آگ دو چار سال سے نہیں لگائی جارہی، بلکہ یہ کام کسان صدیوں سے کررہے ہیں، اس وقت تو پلیوشن نہیں پھیلی تو اب کیا پھیلے گی۔ کسان کھیتوں کو آگ لگانے کی حکومتی پابندی کی مخالفت کریں گے۔ حکومت کو اگر پلیوشن ختم کرنی ہے تو کارخانوں اور کیمیکل کمپنیوں کو کنٹرول کرنا ہوگا اور اگر حکومت زبردستی کرے گی توکسان پورا دیش جام کردیں گے۔ معروف بھارتی جریدے، ٹیلیگراف نے بتایا ہے کہ ہر سال دہلی ہریانہ اور پنجاب کے کھیتوں کی آگ سے کثیف دھویں اور دھند کی زد میں رہتا ہے۔ جبکہ ہندوئوں کی جانب سے منائے جانے والے تہواروں سے بھی شدید قسم کی فضائی آلودگی پھیلتی ہے۔ گزشتہ برس 18 اکتوبر کو بھارت بھر بالخصوص دہلی میں دیوالی پر کروڑوں، اربوں پٹاخوں اور گھریلو ساختہ بم پھوڑنے کی وجہ سے دارالحکومت شدید آلودگی کی زد میں تھا۔ دہلی شہر میں ماحولیاتی آلودگی کیلئے ہائی الرٹ کرنے والے مرکزی ادارے اور میٹرولوجیکل آفس نے خبردار کیا ہے کہ دھویں کے سبب بننے والی دھند سے نہ صرف آلودگی بڑھ رہی ہے بلکہ اس کی زد میں آکر انسان اور مویشی بھی سانس کی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ ادارے کی جانب سے دی گئی وارننگ میں کہا گیا ہے کہ اگر اگلے چوبیس گھنٹوں میں صورت حال میں بہتری نہیں آئی تو عوام الناس کو ہنگامی طبی سہولیات فراہم کرنی پڑیں گی۔ ٹریبون انڈیا نے بتایا ہے کہ مودی حکومت اس حساس مسئلے کی جانب بالکل توجہ نہیں دے رہی، جس کے بارے میں عالمی اور مقامی ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ لاکھوں اموات کا سبب بن سکتا ہے۔ ادھر جرمن ریڈیو، ڈوئچے ویلے کا ایک رپورٹ میں کہنا ہے کہ ہریانہ اور پنجاب کے کسان چاول کی فصل کی کٹائی کے بعد اپنے کھیتوں کو آگ لگا دیتے ہیں، جس سے تمام گھاس پھونس اور فالتو پودے جل جاتے ہیں اور کسانوں کے بقول اس سے نئے کھاد بھی پیدا ہوجاتی ہے اور کھیت اگلی فصل کیلئے بالکل تیار ہوجاتا ہے۔ لیکن مقامی ایگری کلچر ماہر، کلیان سنگھ کا کہنا ہے کہ اس سنگین مسئلے پر مرکزی اور ریاستی حکومتیں خاموش ہیں حالانکہ کسانوں کو بتایا جاسکتا ہے کہ کھیتوں کو اگلی فصل کیلئے تیار اور صاف صفائی کیلئے جدید مشین کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے، جس پر صرف پانچ سے چھ ہزار روپے فی کھیت کا خرچ آتا ہے۔ لیکن کسان حضرات پانچ ہزار روپے بچانے کیلئے آٹھ آنے کی ماچس خریدتے ہیں اور ایک کھیت صاف کرلیتے ہیں۔ لیکن اس طریقہ کار میں انسانوں، جانوروں، پرندوں اور ماحولیات کو جو نقصان پہنچتا ہے وہ کروڑوں کا ہے۔ اس لئے بھارت سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسانوں کو باورکرائے کہ فضا اور ماحول کو صاف ستھرا رکھنے اور انسانوں او جانوروں کے صحت مند بنانے کیلئے انہیں دور قدیم کا یہ آگ لگانے کا طریقہ ترک کرنا ہوگا۔ واضح رہے کہ دنیا کے آلودہ ترین ٹاپ ٹین شہروں میں دہلی کا نمبر چھٹا ہے۔ یہاں موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی شہریوں کو گردوغبار اور شدید قسم کی دھند کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے نہ صرف سینکڑوں اموات ہوتی ہیں بلکہ دمہ، حلق اور ناک کے ہزاروں نئے مریضوں میں اضافہ بھی ریکارڈ کیا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭