احمد ندیم قاسمی
محترم حکیم محمد سعیدؒ کی کثیر الجہات شخصیت کے بارے میں کچھ کہنا مہذب انسانوں کی معاشرتی سرگرمیوں کی جتنی بھی جہات ہوسکتی ہیں، ان سب کو احاطہ تحریر میں لانے کے برابر ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ناممکنات کی حد تک دشوار کام ہے۔ ظاہر ہے کہ حکیم صاحب صرف ایک شخص، صرف ایک ذات، صرف ایک فرد تھے، مگر مشکل یہ ہے کہ ان کی صرف ایک دو یا دس سرگرمیوں کا ذکر کیجئے تو ان کی بیسیوں دوسری سرگرمیاں تشنہ توجہ رہ جاتی ہیں اور یوں اس ایک فرد کے پھیلائو کو سمیٹنا کم سے کم میرے لئے نہایت درجہ دشوار ہے۔ چنانچہ بڑی دشواری یہ بھی ہے کہ معاشرے کی بہبود اور عالم انسانیت کی فلاح کے چیلنج تو تاریخ انسانی میں بے شمار اصحاب نے قبول کئے ہیں، مگر ان سب کی فلاحی جدوجہد کسی ایک شعبے تک محدود ہوتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص اپنے آپ کو کوڑھیوں کے علاج اور دیکھ بھال کے لئے وقف کردیتا ہے تو یہ انتہائی نیک کام ہے اور اس ضمن میں اس شخص کی بھرپور تحسین ہونی چاہئے۔ یہ الگ بات کہ اس کی جدوجہد ایک دائرے میں محدود ہے، مگر جو شخص ایک اعلیٰ پائے کا تجربہ کار معالج ہونے کے ساتھ ہی علم و حکمت، تہذیب و ثقافت، تعلیم و تربیت اور کردار و اخلاق کے شعبوں کو بھی اپنی سرگرمیوں میں شامل کرتا ہو اور ان شعبوں کی فلاح کی انتہا کردیتا ہو، مگر ساتھ ہی طب کا سلسلہ بھی باقاعدگی سے جاری رکھتا ہو اور جو کروڑوں اربوں روپے کمانے کے باوجود نہایت درجہ سادہ زندگی گزارتا ہو اور جو بچوں کے لئے لکھی ہوئی ڈائری میں خود بتاتا ہو کہ ’’میں تو اپنی شیروانی اور کرتہ پاجامہ بھی خود ہی دھولیتا ہوں، اپنی بنیان اور اپنے موزے خود دھو کر ڈالتا ہوں، صبح میں اپنا غسل خانہ روزانہ خود ہی صاف کرتا ہوں اور ہر چیز چمکا کر آئینہ بنادیتا ہوں‘‘ تو ایسا شخص ایک فرد کہاں ہوا، وہ تو اپنی ذات میں ایک ادارہ تھا، اور ایک وسیع اور بھرپور ادارے کے خدوخال کو چند سطور میں بیان کرنے کے لئے دانش و حکمت کی وہ قوتیں درکار ہوتی ہیں، جو میرے خیال کے مطابق مجھ میں کماحقہ موجود نہیں ہیں۔
محترم حکیم صاحب کی تاریخ پیدائش 9جنوری 1920ء ہے، چنانچہ جب آزاد پاکستان وجود میں آیا تو وہ ستائیس سال کے ایک ایسے نوجوان تھے جنہیں ہر طرح کی آسائش میسر تھی اور دولت و ثروت ان کے گھر کی باندیاں تھیں، مگر مشکل یہ تھی کہ پاکستان سے محبت ان کے جسم میں خون کی طرح رواں تھی۔ چنانچہ وہ یہ سب دولتیں اور آسائشیں تج کر پاکستان آگئے۔ کراچی میں اعوان لاج کے ایک چھوٹے سے کمرے میں انہوں نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا (چلتے چلتے مجھے اس امر پر خوش ہولینے دیجئے کہ میں اعوان ہوں اور محترم حکیم صاحب کا آغاز کار اعوان لاج سے وابستہ ہے) پھر آرام باغ روڈ کے ایک کمرے میں انہوں نے ہمدرد مطب قائم کیا۔ کمرہ بھی کرائے کا تھا اور اس کا فرنیچر بھی کرائے کا تھا اور یاد رہے کہ یہ اسی شخص کی اقامت گاہ تھی، جو دہلی میں امارت کی اونچی مسند چھوڑ آیا تھا۔
یہ 1948ء کا واقعہ ہے اور پھر یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ یہ مطب اگرچہ ایک فرد واحد کی ملکیت تھا مگر اس عجیب و غریب فرد واحد نے چار پانچ سال بعد ہی 1953ء میں مطب کو ’’وقف‘‘ قرار دے دیا اور یوں اپنا سب کچھ قوم کے سپرد کردیا۔ تب سے اب تک کی داستان بہت طویل ہے، مگر یہ ایک ایسی داستان ہے، جس کی گزشتہ چند صدیوں کی تاریخ میں نظیر پیش کرنا مشکل ہے۔
آج مدینۃ الحکمت اس عظیم خواب کی ہمہ گیر تعبیر کی صورت میں سرزمین کراچی سے ابھرا ہے، جو محترم حکیم محمد سعید صاحب نے کراچی میں قیام کے ابتدائی دنوں میں کرائے کے کمرے اور کرائے کے فرنیچر کے ماحول میں دیکھا تھا۔ یہ سارا کمال ان کی جرأت اور حوصلہ مندی کا تھا۔ ان کی تہذیب و شائستگی کا تھا، ان کی دیانت اور خود اعتمادی کا تھا، ان کے پاکیزہ مقاصد اور ان کی محیر العقول اور انتہک محنت کا نتیجہ تھا۔ محنت اور مسلسل محنت نے محترم حکیم محمد سعید کے وجود میں تجسیم پائی تھی۔
میں سمجھتا ہوں کہ حضرت قائداعظمؒ نے جب قیام پاکستان کے دنوں میں نئی پاکستانی قوم کے سامنے ’’کام کام اور کام‘‘ کا نعرہ سر کیا تو حکیم صاحب نے اسے اپنے باطن میں اتار لیا تھا، چنانچہ انہوں نے اتنی محنت کی اور وہ 78 برس کی عمر میں بھی اس معیار کی محنت کررہے تھے کہ ایسی کارکردگی کا تصور بھی کریں تو دماغ کی نسیں پھٹنے پر آجائیں۔ اپنی ذات کی نفی کرکے دوسروں کے لئے اپنی محنت اور دیانت کی کمائی ہمیشہ کے لئے وقف کردینا انسانی حق کے پاس و احترام کا ایک معجزہ ہے، جو محترم حکیم محمد سعید صاحب نے حیرت انگیز استقامت سے سر کیا۔
طبابت کا سلسلہ ان کی جملہ دیگر سرگرمیوں کے باوجود باقاعدگی سے جاری رہا۔ چنانچہ وہ لگ بھگ چالیس لاکھ مریضوں کا علاج فرماچکے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ مفت طبی مشورہ دیا۔ حد یہ ہے کہ انہوں نے وفاقی حکومت کے وزیر ہونے کے دنوں کے علاوہ صوبہ سندھ کی گورنری کے دنوں میں بھی پاکستان کے تمام بڑے بڑے شہروں میں مریضوں کو نہایت شفقت سے مشورے دیئے اور علاج تجویز کرنے کا کام باقاعدگی سے جاری رکھا۔
اللہ تعالیٰ نے حکیم صاحب کو کامرانیوں پر کامرانیاں عطا کیں، قدم قدم پر انہیں ان کے ہر خواب کی تعبیر ملی، ایک ایک کرکے بظاہر ان کے سبھی خواب پورے ہوئے اور ان خوابوں کی تکمیل کا سلسلہ آخری دم تک جاری رہا۔ وہ ہمدرد فائونڈیشن کے صدر تھے، ہمدرد یونیورسٹی کے بانی چانسلر اور ہمدرد لیبارٹری کے بانی صدر نشین تھے، چالیس کے قریب اردو کتابوں کے اور تیس کے قریب انگریزی کتابوں کے مصنف اور مرتب تھے۔ ان کی ذاتی لائبریری پچاس ہزار کتابوں پر مشتمل تھی اور انہوں نے اپنی یہ لائبریری بھی ہمدرد یونیورسٹی لائبریری کے حوالے کردی۔ اس لائبریری کے لئے اب تک نوے لاکھ روپے کی کتابیں خریدی جاچکی ہیں۔ انہوں نے مدینۃ الحکمت کے نام سے تہذیب و ثقافت اور علم و فن کا پورا شہر بسادیا اور اس مفروضے کی عملاً تنسیخ کردی کہ:
’’بستی بسنا کھیل نہیں، بستے بستے بستی ہے انہوں نے تو بستی بسانا ادھر طے کیا، ادھر یہ بستی زمین کے سینے میں کھمبیوں کی طرح اگ آئی۔ اس مدینۃ الحکمت میں ہمدرد پبلک اسکول ہے، جس میںبیک وقت پانچ ہزار بچے تعلیم پاتے ہیں۔ دو ہزار بچوں کے لئے یتیم خانہ الفرقان ہے۔ دس ہزار طلبہ پر مشتمل یونیورسٹی ہے۔ ہمدرد میڈیکل کمپلیکس ہے، ہمدرد انسٹی ٹیوٹ ہے، جس میں پودوں اور جڑی بوٹیوں کے خواص کی تحقیق کا کام جاری رہتا ہے۔ سائنس میوزیم ہے، اسپورٹس اسٹیڈیم ہے، بچوں کا پلے لینڈ ہے، یوتھ سینٹر ہے، ہمدرد لائبریری ہے، جس کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ ہر قوم کے محققین کی سہولت کے لئے آرام دہ رہائش گاہیں تعمیر ہوچکی ہیں اور یہ سب ادارے رنگ، نسل اور نظریہ عقیدہ سے ماوریٰ عالم انسانیت کے لئے وقف ہیں۔
حکیم صاحب نے 75 غیر ملکی کانفرنسوں میں شرکت فرمائی۔ 35 سال سے ’’شام ہمدرد‘‘ کا سلسلہ ملک کے ہر شہر میں جاری رہا۔ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، فرانس، روس، چین، جاپان، ناروے، سویڈن، ڈنمارک، جنوبی امریکہ، کوریا، انڈیا غرض پورے کرۂ ارض کے ممالک کا دورہ کیا اور خالی دورہ کرکے واپس نہیں آگئے، بلکہ سفر نامہ کی صورت میں کتابیں اور اپنے مشاہدات و تجربات کو نسلوں کے حوالے کیا۔ طب کے بارے میں بعض با اثر لوگوں کی غلط فہمیاں دور کرنے کے سلسلے میں انہوں نے بڑا کام کیا۔ نتیجتاً اطباء اور ڈاکٹروں اور سائنس دانوں کا اتحاد قائم ہوا اور ان کی زندگی ہی میں طب کو شجر ممنوعہ قرار دینے والے ختم ہوچکے تھے۔
محترم حکیم صاحب نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف قوم اور حکمرانوں کو متوجہ کرکے اس صدی کی ایک شدید ضرورت کو پورا کیا۔ بچوں کے ساتھ ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ہمدرد نونہال کے دو تین اجتماعوں میں شرکت کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ حکیم صاحب بچوں کے محبوب ہیں۔ انہوں نے شاعری کی قوت خیزی کے اعتراف کے طور پر ہر شہر میں، ہر ماہ، ملک بھر کے شعرا کو تحسین کے پھولوں سے لادنا شروع کردیا۔ آواز اخلاق کی تحریک کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ کہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے رہنے والے اسلامی اخلاق سے بھی دستبردار ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور محترم حکیم صاحب نے ہمارے زوال کا اندازہ لگا کر یہ تحریک شروع کی۔
حکیم محمد سعید صاحب کی سرگرمیوں کے کس کس شعبے کا ذکر کیا جائے کہ سب ہی شعبوں کے تذکرے کے بعد اب بھی اتنے ہی شعبے بچے رہے ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ ان کے یہ کمالات غیر زمینی اور غیر انسانی لگتے ہیں، جبکہ انہوں نے جو کچھ کیا، اس زمین پر بسنے والے انسانوں ہی کی حق رسی کے لئے کیا، البتہ میں یہ کہنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں’’سپرہیومین‘‘ صفات سے نواز رکھا تھا اور انہوں نے ہماری نصف صدی کی سیاہ اندھیری تاریخ میں خدمت خلق کا ایک ایسا آفتاب روشن کردیا تھا، جو غروب ہونا جانتا ہی نہیں۔٭
٭٭٭٭٭