کھلتے بند ہوتے پل سینٹ پیٹرز برگ کا جادو ہیں

سجاد عباسی
سینٹ پیٹرزبرگ شہر میں یوں تو نہروں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے جو دریائے نیوا سے نکل کر پورے شہر میں شریانوں کی صورت پھیلی ہوئی ہیں۔ مگر کہتے ہیں کہ ان پر بنے پلوں کے بجائے پیٹر دی گریٹ روسیوں کے ہاتھوں میں چپو تھما کے انہیں کشتیاں کھینے کا ہنر سکھانا چاہتا تھا۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ تب آمد و رفت کا واحد ذریعہ کشتیاں ہی تھیں۔ لہٰذا وہ اپنے لوگوں کو تلاطم خیز موجوں کی دہشت سے مانوس کرنے، طوفانوں سے نبرد آزما ہونے اور بیکراں لہروں کو لگام ڈالنے کی تربیت دینا چاہتا تھا۔ دوسرے اس کے سامنے اٹلی کے شہر وینس کی مثال تھی جو118 جزیروں پر مشتمل ہے اور جہاں سڑکوں کے بجائے نہریں شریانوں کی طرح پھیلی ہوئی ہیں۔ اسی طرح ہالینڈ کا دارلحکومت ایمسٹرڈم بھی پیٹر دی گریٹ کو بہت پسند تھا جہاں وینس کی طرح کشتیوں اور چپوئوں کا راج تھا۔ اس خواہش کے پیچھے ان دونوں شہروں سے سینٹ پیٹرز برگ کی مماثلت تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ ڈیڑھ سو برس قبل تک سینٹ پیٹرزبرگ میں بھی سو سے زائد جزائر مو جود تھے تا ہم اب یہ تعداد 40 سے 45 کے درمیان رہ گئی ہے۔ چنانچہ پیٹر دی گریٹ کے حکم پر آزمائشی بنیادوں پر تین فلوٹنگ (تیرتے ہوئے) پل بنائے گئے مگر منہ زور ہوائوں، طاقتور آندھیوں اور برفانی طوفانوں نے ان پلوں کو تاش کے پتوں کی طرح بکھیر دیا۔ پھر پیٹر کی موت کے بعد انیسویں صدی کے وسط میں کوئی سو سے زائد پکے دھاتی پل تعمیر کیے گئے۔ ان میں ایک کلو میٹر طویل الیگزینڈر نیواسکی جیسے پل بھی شامل ہیں جن پر ہر قسم کی ٹریفک رواں دواں رہتی ہے۔ جبکہ چند ایک پل پیدل چلنے والوں کیلئے بھی مخصوص ہیں۔ سینکڑوں تالابوں، جھیلوں اور ندیوں سمیت پارکوں اور باغیچوں میں نصب800 سے زائد چھوٹے بڑے پل اس کے علاوہ ہیں۔ جبکہ مختلف بندرگاہوں اور یاٹ کلبوں میں موجود پلوں کی تعداد بھی سو کے قریب ہے۔ اس طرح سینٹ پیٹرزبرگ میں پلوں کی کل تعداد لگ بھگ ایک ہزار بتائی جاتی ہے۔ دریائے موئے کا، کے آرپار نصب تقریباً سو میٹر چوڑا بلیو برج دنیا کا سب سے چوڑا پل تصور کیا جاتا ہے۔ کچھ پلوںکے نام مختلف علاقوں کی مناسبت سے رکھے گئے ہیں۔ جبکہ کچھ کو مختلف زبانوں کے تعلق سے یاد کیا جاتا ہے جیسے انگلش، اطالوی، مصری وغیرہ۔ کئی پل نامور روسی شخصیات کے ناموں سے منسوب ہیں جیسے الیگزنڈر نیوسکی، پیٹر دی گریٹ برج وغیرہ۔ اسی طرح کچھ پلوں کو رنگوں سے یاد کیا جاتا ہے جیسے ریڈ، گرین۔ لیکن آج ہمارا اصل موضوع دریائے نیوا کے جلترنگ بجاتے پانیوں پر رنگ و نور کی برسات کے دوران منعقد ہوتی وہ انوکھی تقریب ہے جو باہر سے آنے والوں کیلئے بے پناہ کشش تو رکھتی ہی ہے، خود روسی اس کے ہر ہر لمحے سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اس کا اہتمام روزانہ اسی طرح کیا جاتا ہے جیسے کہ یہ تقریب پہلی بار منعقد ہو رہی ہو۔ سیاحوں کے دلپسند نظاروں پر مشتمل یہ تقریب دریائے نیوا پر 22 پلوں کا کھلنا اور بند ہونا ہے جو یومیہ بنیادوں پر جشن کا سماں پیدا کرتی ہے۔ یہ تقریب ہے کیا؟ نیوی گیشن یعنی جہاز رانی کے موسم کے دوران اپریل سے نومبر تک ہر نصف شب کے بعد مقررہ وقت پر دریائے نیوا پر نصب لوہے کے ان بائیس پلوں کو کھول کر 90 ڈگری کے زاویے پر اٹھا دیا جاتا ہے۔ اس دوران ان پر چلنے والی ہر قسم کی ٹریفک دریا کے آرپار رک جاتی ہے۔ جبکہ پلوں کے نیچے سے ہیوی بحری ٹریفک کو گزرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے بڑے شہروں کی مصروف شاہراہوں پر ہیوی ٹریفک کے لیے مخصوص اوقات مقرر کیے جاتے ہیں۔ پلوں کو اوپر اٹھا کر کارگو شپس کو بالٹک سی میں داخلے اور اخراج کیلئے گزرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ بتایا گیا یہ خوبصورت اور رنگارنگ تقریب اگرچہ ہر شب منعقد ہوتی ہے، مگر روسی شہری اسے بھرپور انداز میں اس طرح مناتے ہیں، گویا یہ کوئی سالانہ تہوار ہو۔ گہرے پانی میں پلوں کے کھلنے کی تقریب کا نظارہ لوگ کمرشل بوٹس کے اندر بیٹھ کر کرتے ہیں۔ ان بوٹس کو حسب ضرورت منظر کے قریب لے جایا جاتا ہے جبکہ بعض منچلے اور غیر ملکی سیاح عرشے پر چڑھ کر خوب ہلہ گلہ کرتے ہیں۔ اس منظر سے لطف اندوز ہونے کیلئے کروز کا فی کس کرایہ 1000 سے 1500 روبل ہے۔ جبکہ دو ڈھائی گھنٹے کے دوران کروز پر کھانے پینے کی اشیا کی قیمت اس کے علاوہ ہوتی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک بار آپ بوٹ یا کروز کے مسافر بن گئے تو گہرے پانی میں جانے کے بعد تقریب ختم ہونے سے پہلے آپ کی واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ ہر ٹیبل پر روس کا ’’قومی مشروب‘‘ پہلے سے موجود ہوتا ہے، جیسے ہمارے ہاں مہمانوں کو بغیر پوچھے پانی فراہم کرنا بنیادی آداب کا حصہ ہے۔ اس مشروب کی بے تحاشہ اور وافر دستیابی، روس کی نوجوان نسل کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے۔ مگر بظاہر اس حوالے سے کسی سختی یا قدغن کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ دو ڈھائی گھنٹے کے دوران ہم نے بوٹ کے اندر مختلف میزوں پر ایسے کئی مناظر دیکھے جن میں نوجوان جوڑے عالمِ بے خودی میں یا تو دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو گئے اور یا پھر اپنے پارٹنر کی موجودگی بھلا بیٹھے۔ اس دوران تیز موسیقی کی دھن پر منچلے جوڑے رقص بھی کرتے ہیں جبکہ کئی جوڑے حسب منشا شخصی آزادی کا مظاہرہ کرکے دیگر لوگوں کیلئے تفریح طبع کا سامان بھی پیدا کرتے ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد دریائے نیوا کے ساحل پر کھڑی ہوکر بھی اس دلکش منظر سے محظوظ ہوتی ہے۔ (یہاں بڑی تقریب کی بات ہو رہی ہے) جونہی لوہے کا پل درمیان سے الگ ہوتا ہے آتش بازی کے ذریعے فضائوں کو رنگوں سے بھر دیا جاتا ہے جبکہ موسیقی کی دھن پر تھرکتے قدموں کی رفتار تیز تر ہو جاتی ہے۔ ویسے ہم نے اس رنگا رنگ تقریب کو جہاں روسیوں کی زندہ دلی اور زندگی کے ہر لمحے سے لطف اٹھانے کی لگن سے تعبیر کیا وہیں دل ہی دل میں ان کی کاروباری ذہنیت کو بھی داد دئیے بغیر نہ رہ سکے۔ روزانہ سجنے والا یہ میلہ تو ظاہر ہے ان کی ایک کاروباری ضرورت ہی ہے جس میں کارگوجہازوں کو گزرنے کا راستہ دیا جاتا ہے۔ مگر اس کے ذریعے جہاں ایک طرف روسی شہریوں کے لیے تفریح کا شاندار بندوبست کیا جاتا ہے وہیں سیاحوں کی جیبوں سے ریونیو کی صورت حکومتی خزانے میں روزانہ ایک بھاری رقم بھی منتقل ہوتی ہے۔ دراصل روسی اتنے سیانے ہیں کہ جہاں اپنے لیے تفریح کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے، وہیں اس تفریح میں سے کمائی کا بھی کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے ہیں۔ مگر ایسے موقع پر اپنے وطن کے فیصلہ سازوں کی کم فہمی اور لاپرواہی پر بھی رونا آتا ہے کہ ایک طرف’’کافر لوگ‘‘ اپنی تجارتی سرگرمیوں کو بھی دوسرے کی جیب سے پیسہ نکالنے کا ذریعہ بنالیتے ہیں اور ہم خوشی خوشی وہاں لٹ کر آجاتے ہیں، جبکہ دوسری طرف ہم جنت نظیر مقامات کے مالک ہونے کے باوجود سیاحت کی صنعت کو فروغ دینے میں ناکام ہیں۔ ہمارے ہاں اول تو سیاحتی مقامات تک رسائی جان جوکھم کا کام ہے اور اگر بھولے سے لوگ چلے بھی جائیں تو ان کے ساتھ ہونے والا ’’حسن سلوک‘‘ انہیں دوبارہ وہاں کا رخ کرنے سے باز رکھتا ہے۔
( جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment