حضرت امنون ؑکی قبر ایک صدی قبل دریافت ہوئی

احمد خلیل جازم
شیخ چوگانی میں ہی حضرت طانوخؑ کے مزار کے جنوبی جانب ایک میل کے فاصلے پر ایک اور قبر ہے، جس کے اوپرخوبصورت مزار تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ قبر بھی نو گز لمبی ہے اور صاحبِ مزار کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ بھی اللہ کے پیغمبر ہیں۔ یہ قبر کھنڈرات اور گھنے درختوں کے درمیان واقع ہے۔ جس جگہ یہ واقع ہے، اس طرف راستہ بالکل ویران ہے۔ حضرت امنونؑ کی قبر بھی خواجہ گوہرالدین نے قریباً سو برس قبل کشف القبور کے علم سے دریافت کی تھی۔ مقامی لوگوں کے مطابق ’’حضرت امنون کو یہاں دفن ہوئے دو ہزار چار سو برس بیت چکے ہیں‘‘۔ لیکن حضرت گوہرالدین لکھتے ہیں کہ آپ حضرت طانوخؑ کے بعد یہاں مدفون ہوئے۔ یہ عرصہ حضرت طانوخ کا ہے۔ شیخ ضیا کا کہنا ہے کہ ’’ان دونوں پیغمبروں کے بارے میں جب خواجہ گوہرالدین نے انکشاف کیا اور بعد ازاں تحقیق نگاروں نے ان کی کھوج لگائی تو ان انبیائے کرام کے بارے میں عیسائیوں کی مقدس کتب میں ان کا حال احوال ملا، جو مختلف کتب میں درج ہے۔ کوشش ہوگی کہ ان کا حوالہ بھی پیش کیا جائے۔ اس کے علاوہ ان نبیوں کے بارے میں دیگر بزرگوں نے بھی تصدیق کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس ویرانے میں ہونے کے باوجود لوگ جوق در جوق یہاں حاضری دیتے ہیں۔ صاحب قبر کے بارے میں تو اللہ کی ذات کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ کون ہیں، لیکن جن لوگوں کو کشف ملا، انہوں نے اسی بنیاد پر ان کا انکشاف کیا۔ جبھی لوگوں نے ان کے مزارات کو آباد کیا‘‘۔
حضرت امنونؑ کا مزار بھی ٹیلے پر واقع ہے، لیکن یہ ٹیلا اس قدر اونچا نہیں ہے، جیسا حضرت طانوخؑ کا ہے۔ البتہ دریائے چناب مزار کے بالکل سامنے سے ہوکر گزرتا ہے۔ مزار کے دائیں طرف ایک قدیم اور بڑا درخت بھی موجود ہے، جس کی چھائوں بہت گھنی ہے۔ قبر بھی سنگ مرمر کی ہے اور اس پر جو مزار ہے، اس پر بھی خوبصورت سنگ مرمر کا کام کیا گیا ہے۔ جبکہ مزار کے ساتھ جو چار ستون ہیں، ان پر بہت دلکش نقش و نگار کندہ ہیں۔ مزار کا اندرونی حصہ قدرے چھوٹا ہے، لیکن اتنا چھوٹا بھی نہیں کہ وہاں چند لوگ بھی داخل نہ ہو سکیں۔ دونوں اطراف کھڑکیاں رکھی گئی ہیں، جن سے تازہ ہوا اندر داخل ہوتی ہے۔ ایک کھڑکی جو دائیں جانب ہے، اس کی سمت دریا اپنا رخ موڑتا ہے۔ اس وجہ سے دریا کی ٹھندی ہوا مزار کے اندر محسوس کی جاسکتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس مزار کے سامنے دریا کا پاٹ چوڑا ہونے کے ساتھ ساتھ بھرا ہوا بھی ہے۔ پانی کی رفتار بھی تیز ہے، لیکن آگے جا کر یہ پانی ایک میل کے فاصلے پر خاصا کم ہوجاتا ہے۔ شیخ ضیا کا کہنا تھا کہ ’’یہ جگہ کسی کی ملکیتی تھی، لیکن تمام جگہ خواجہ گوہرالدین نے خرید کر خود ہی یہاں مزار تعمیرکرایا تھا۔ اب یہ مزار کے نام ہے۔ مزار پر شیخوپورہ سے وین بھر کر زائرین کی آئی، جنہوں نے اپنے لیے منت اور دعا مانگی۔ ایک زائر افتخار کا کہنا تھا ’’ہم ہر ماہ یہاں حاضری دیتے ہیں۔ یہاں آکر بہت سکون ملتا ہے۔ ہمارے خاندان اور دیگر جاننے والے ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ یہاں جو دعا بھی مانگی جائے اسے شرف قبولیت حاصل ہوتا ہے۔ پہلے ہم ہر ہفتے آیا کرتے تھے، لیکن اب یہ دورہ مہینے پر محیط ہوگیا ہے کہ خاندان کے کچھ لوگ دیگر شہروں میں چلے گئے ہیں، جو چھٹی پر ہر ماہ گھر واپس آتے ہیں تو ہم ان کے ہمراہ یہاں حاضری دیتے ہیں۔ ہم مانگتے تو خدا کی ذات سے ہی ہیں، لیکن ہمیں مانگنے کا طریقہ نہیں آتا۔ ان مزارات پر آکر اللہ کے سامنے عرضی رکھی جاتی ہے تو وہ بادشاہ ان کی نسبت سے قبول کرلیتا ہے‘‘۔
مزار کے متولی اظہر شاہ اسی دوران ہمارے قریب آگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں آٹھ برس سے یہاں پر موجود ہوں۔ یہاں صبح دس بجے سے لے کر چار بجے تک دال روٹی کا لنگر جاری رہتا ہے۔ اس کے بعد چائے پیش کی جاتی ہے۔ کوئی بھوک کی شکایت کرے تو اسے رات کے لنگر کی تیاری تک چائے کے ساتھ بسکٹ پیش کردئیے جاتے ہیں۔ جو رہنا چاہے تو یہ نیچے ایک بڑا کمرہ ہے، یہاں اسے رہائش دی جاتی ہے۔ یہ مزار گائوں کی ایک پانچ رکنی کمیٹی کے کنٹرول میں ہے، جس میں ایک آصف شاہ اور دوسرے پیر فضل شاہ ہیں، جو کار مختار ہیں‘‘۔ اظہر شاہ نے یہ بات بتا کر حیران کر دیا کہ ’’دربار پر لنگر سے لے کر تعمیر کے لیے ایک اینٹ کی رقم بھی کمیٹی فراہم نہیںکرتی۔ جو کچھ گلے سے برآمد ہوتا ہے وہ نکال کر لے جاتے ہیں اور بینک میں جمع کرادیا جاتا ہے‘‘۔ کرامات کے حوالے سے اظہر شاہ کا کہنا تھا ’’یہاں جو آتا ہے اپنے آپ سے بیگانہ ہوجاتا ہے۔ ایسی باتیں کرتا ہے جو کسی کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ بعض تو ایسے ہیں کہ وہ یہاں آکر سار ا سارا دن خاموشی سے لکھتے رہتے ہیں۔ کیا لکھتے ہیں، کچھ خبر نہیں۔ ان آٹھ برسوں میں یوں تو لاتعداد واقعات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں، لیکن ایک ایسا واقعہ بھی ہوا ہے جو بھلائے نہیں بھولتا۔ سرگودھا سے بہن بھائی یہاں آتے تھے۔ وہ دونوں یہاں آکر رات بھر زبانی کلام پاک پڑھتے ہیں۔ ویسے تو وہ دن کی روشنی میں آجاتے تھے لیکن ایک روز رات گیارہ بجے گاڑی کی ہیڈ لائٹس دکھائی دیں۔ میں اٹھ کر گیا کہ اس وقت کون آگیا ہے۔ تو وہی دونوں اپنے ڈرائیور کے ہمراہ تھے۔ میں نے ان سے کھانے وغیرہ کا پوچھا تو انہوں نے کہا کہ چائے پئیں گے۔ ان کا ڈرائیور گاڑی میں موجود رہا۔ دونوں نے وضو کیا اور قرآن کریم پڑھنا شروع کردیا۔ دونوں حافظ قرآن تھے۔ رات تین بجے تک قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہے۔ جب جانے لگے تو میں نے مرد سے کہا کہ جناب، آپ برا نہ منائیں تو ایک سوال کروں۔ اس کے اثبات پر میں نے پوچھا، اتنی رات گئے کیسے آگئے، صبح آجاتے۔ تو انہوں نے کہا کہ جب حکم ملتا ہے چل پڑتے ہیں۔ اسی وقت حاضری کا حکم ہوا تھا، اس لیے وقت اور راستہ دیکھنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ میں نے کہا کہ یہ علاقہ تو بہت خطرناک ہے۔ کہا جاتا ہے رات کو یہاں اشتہاری اور قاتل پھرتے ہیں، جو لوگوں کو لوٹ لیتے ہیں۔ تو انہوں نے مسکرا کر کہا کہ مجھے بھی رات بندوقوں والوں نے روک لیا تھا۔ کہنے لگے کہ تمہیں معلوم نہیں کہ رات کو ادھر کوئی نہیں آتا۔ ہم تو پولیس کو بھی رات ادھر نہیں آنے دیتے۔ تم ایسے کون سے رستم زماں ہو۔ کہاں سے آرہے ہو اور کدھر جارہے ہو۔ تو میں نے انہیں کہا کہ آپ مجھ سے کیا پوچھتے ہیں۔ ان سے پوچھیں جنہوں نے اتنی رات گئے مجھے بلایا ہے۔ یہ سننا تھا کہ ان کے ہاتھوں سے بندوقیں نکل کر دور جا پڑیں۔ ان پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ سب کچھ چھوڑ کر وہاں سے بھاگ نکلے۔ یہاں عجیب وغریب کرامات کا ظہور ہوتا ہے۔ صاحبِ مزار ہر کسی کو برداشت کرلیتے ہیں، لیکن جو بدکردار شخص ہوگا، اسے کبھی اندر جانے کی اجازت نہیں ملتی۔ اکثر لوگ آتے ہیں، لیکن وہ چاہنے کے باوجود اندر نہیں جاسکتے۔ یہاں پر رکھا نمک اگر کوئی چاٹ لے تو اسے ہر قسم کی بیماری سے شفا نصیب ہوتی ہے‘‘۔
مزار کے احاطے میں چند ایک قبریں دیکھیں۔ ایک قبر کے اردگرد سیمنٹ سے بنی جالیاں لگی ہوئی تھیں۔ ان قبورکے حوالے سے اظہر شاہ کا کہنا تھا کہ ’’یہ بابا جی صاحب دین ہیں۔ یہ مزار کے پہلے خدمت گار تھے۔ اس وقت سوکھی روٹی اور گڑ کی چائے سے لوگوں کی تواضع کیا کرتے تھے۔ تیس برس قبل ان کا ارتحال ہوا، اور اسی احاطے میں دفن ہوئے۔ ان کے بعد ان کے بیٹے علی عبداللہ کی دلی خواہش تھی کہ یہاں لنگر کا سلسلہ جاری رہے، لیکن وہ سعودی عرب چلا گیا اور اٹھارہ برس تک یہاں لنگر بند رہا۔ جب وہ واپس پاکستان آیا تو اس نے یہاں دوبارہ لنگر کا سلسلہ جاری کر دیا، ملازمین رکھے اور اپنی جیب سے لنگر شروع کردیا۔ میرے والد صاحب یہاں صاحب دین مرحوم کے ساتھ ہوتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد مجھے اللہ نے توفیق دی کہ میں یہاں خدمت کروں۔ چنانچہ ان کے بعد اب خدمت میرے ذمہ ہے۔ علی عبداللہ بھی اب وفات پاچکے ہیں۔ ان کے دو بیٹے ہیں۔ ایک سعودی عرب ہوتا ہے، جبکہ دوسرا لاہور میں سکونت پذیر ہے۔ مزار میں کسی قسم کی تعمیرِ نو ہو، لنگر کا انتظام ہو، یا پھر پانی کی موٹریں وغیرہ نئی لگانی ہوں، الغرض کسی قسم کے اخراجات اب انہی دو بیٹوں کے سپرد ہیں۔ ان کا اسی گائوں میں ایک مکان بھی موجود ہے جو انہوں نے اسی غرض سے میرے حوالے کیا ہوا ہے۔ صاحب دین کی خدمت کا سلسلہ ابھی تک ان کے پوتوں کی وجہ سے چل رہا ہے۔ جبکہ مزار پر جو عطیات گلے میں ڈالے جاتے ہیں، وہ گائوں کی کمیٹی لے کر بینک میں جمع کرا دیتی ہے‘‘۔ کیا کمیٹی نے کبھی یہاں تعمیراتی کام میں حصہ نہیں لیا، یا پھر لنگر وغیرہ کے لیے پیسے فراہم نہیںکیے۔ تو اظہر کا کہنا تھا ’’کمیٹی کا صرف ایک ہی کام ہے کہ ہر ماہ یا تین ماہ بعد آکر گلے کا تالا کھول کر وہاں جس قدر نذرانے جمع ہوتے ہیں وہ نکال کر لے جائیں۔ انہوں نے کبھی بھی لنگر میں، وصول شدہ نذرانے سے حصہ نہیں ڈالا، نہ ہی کبھی کوئی اور کام کرانے کی کوشش کی ہے‘‘۔
حضرت امنونؑ کے مزار پر ہماری موجودگی میں لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی۔ راستہ چونکہ کچھ ریتیلا اور پتھریلا تھا، اس لیے زیادہ تر لوگ پیدل اور موٹر بائیکس پر آرہے تھے، لیکن ہائی ایس گاڑیاں بھی زائرین سے بھری ہوئی مزار کے عین دروازے کے سامنے آکر رک رہی تھیں۔ لوگ بڑی عقیدت سے مزار میں داخل ہوکر اپنے لیے دعائیں کرتے اور اسی خاموشی سے واپس چلے جاتے۔ بعض لوگ قرآن کریم کی تلاوت کرتے بھی دکھائی دیئے۔ گجرات اور اس کے گرد و نواح میں نو گز اور بیس گز کی لمبی قبروں کی موجودگی جہاں حیران کرتی ہے، وہیں تحقیق نگاروں نے ان قبروں کے حوالے سے بعض ایسے تحقیقی مضامین لکھے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مزار بنی اسرائیل کے لیے بھیجے گئے انبیا کے ہیں یا پھر اصحاب رسولؐ کی قبور ہیں۔ کیونکہ بعض تحقیق نگاروں نے 42 صحابہ کرامؓ کی آمد کی تصدیق کی ہے اور ان میں سے 27 کے اسم شریف بھی بتائے ہیں، جو تاریخی طور پر ثابت کیے گئے ہیں۔ بعض تحقیق نگار ان قبور کو انسانی عقل کی کارستانی بھی گردانتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ ان قبور میں انبیا ہیں نہ ہی اصحاب رسولؐ۔ بلکہ قدیم مقامی لوگ اپنے سرداروں یا اہم ترین رشتہ داروں کی قبروں کو نمایاں کرنے کے لیے ان کی لمبائی بڑھاتے تھے۔ اصل حقیقت کا علم صرف اللہ کی ذات کو ہے۔ ہم صرف وہ حقائق سامنے رکھ رہے ہیں جو مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے یا پھر بعض صوفیائے کرام کا بیان ہے۔ ہماری اگلی منزل حضرت موسیٰ حجازی کا مزار تھا، جو گجگراں نامی گائوں میں واقع ہے۔ (جار ی ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment