مہنگائی پر عوامی ردعمل نے وزیراعظم کو پریشان کردیا

نمائندہ امت
مہنگائی پر عوام کے شدید ردعمل نے وزیر اعظم کو پریشان کر دیا ہے۔ پارٹی رہنمائوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ مہنگائی کے سبب نہ صرف پی ٹی آئی کی بدنامی ہو رہی ہے، بلکہ اس کی مقبولیت کا گراف بھی نیچے جا رہا ہے۔ اور یہ کہ جہاں اندرونی اختلافات ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی بدترین کارکردگی کا سبب بنے، وہیں گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی نے بھی ضمنی الیکشن کے نتائج کو متاثر کیا۔
وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت پیر کے روز ہونے والا مشاورتی اجلاس ان ہی ایشوز پر غور اور ان سے نمٹنے کے لئے بلایا گیا تھا۔ اس اجلاس کی اندرونی کہانی سے واقف ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ دوران اجلاس عمران خان نے قریباً 20 مرتبہ یہ جملہ دہرایا
’’بہت مشکل حالات ہیں‘‘۔ اجلاس میں وزیر خزانہ اسد عمر، علی محمد خان، مراد سعید، شیریں مزاری، عامر کیانی اور نعیم الحق سمیت دیگر پارٹی رہنمائوں نے شرکت کی۔ تاہم وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ملتان میں بہائو الدین ذکریا کے عرس کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے۔ وہ درگاہ کے سجادہ نشین ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اسد عمر اجلاس میں کچھ تاخیر سے آئے۔ اس موقع پر اجلاس میں موجود بیشتر رہنما لڑکھڑاتی معیشت کے حوالے سے وزیر خزانہ کی حکمت عملی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ تاہم جیسے ہی اسد عمر ہال میں داخل ہوئے تو گفتگو کا رخ تبدیل ہو گیا۔ ذرائع کے مطابق اگرچہ پارٹی نے تردید کی ہے کہ وزیر خزانہ اسد عمر کی کارکردگی سے متعلق عمران خان کے اظہار عدم اطمینان کی خبر درست نہیں، لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ پارٹی چیئرمین سمیت بہت سے رہنمائوں کا خیال ہے کہ ملک کی معیشت کو بروقت ہینڈل کرنے میں اسد عمر سے کوتاہی ہوئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں وزیر اعظم نے کہا کہ نہ سعودی عرب پیسہ دے رہا ہے اور نہ کسی اور دوست ملک کی طرف سے ریلیف ملنے کا امکان ہے۔ دوسری جانب آئی ایم ایف بڑی سخت شرائط کے ساتھ قرضہ دے گا۔ ایسے میں بجلی سمیت دیگر اشیا کی قیمتیں بڑھانا ناگزیر ہو گیا ہے اور یہ سارا بوجھ عوام پر پڑے گا۔ لہٰذا اس کے نتیجے میں جو متوقع ردعمل ہو گا، اس کو کائونٹر کرنے کے لئے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ذرائع کے بقول بعد ازاں اجلاس میں متفقہ طور پر طے کیا گیا کہ وزرا اور دیگر حکومتی مشینری میڈیا کے ذریعے یہ بیانیہ مضبوط کرے گی کہ معاشی بدحالی مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی سابق حکومت کی پالیسیوں کے سبب پیدا ہوئی۔ موجودہ حکومت ورثے میں ملنے والے اس معاشی بحران کو حل کرنے کے لئے نہ چاہتے ہوئے بھی مجبوراً عوام پر بوجھ ڈال رہی ہے۔ ورنہ ملک معاشی طور پر بیٹھ جائے گا۔ تاہم اگلے ایک برس تک حکومت عوام کو ریلیف دینے کی پوزیشن میں آ جائے گی۔ اجلاس میں نشاندہی کی گئی کہ حکومت کے حوالے سے لوگوں میں مہنگائی کا تاثر بڑا غلط جا رہا ہے۔ اس میں روایتی میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا پیش پیش ہے، جہاں اس حوالے سے منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔ جس پر اس مہم کو کائونٹر کرنے کے لئے پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کو مزید متحرک کرنے کے علاوہ وزرا کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ مہنگائی کا اصل ذمہ دار سابق حکمرانوں کو ٹھہرانے کے لئے میڈیا کو بھرپور طریقے سے استعمال کریں۔ اور یہ تاثر گہرا کیا جائے گا کہ موجودہ مہنگائی میں حکومت کا کوئی قصور نہیں۔ ذرائع کے مطابق ایک موقع پر علی محمد خان نے لقمہ دیا کہ چھ ماہ میں حکومت، پاکستان کو مشکل حالات سے نکال لے گی۔ اس کے ساتھ ہی پارٹی کی مقبولیت میں جو تھوڑی بہت کمی آئی ہے، اس کا ازالہ ہو جائے گا۔ جس پر وزیر اعظم نے ناگواری سے علی محمد خان کو کہا کہ وہ اپنی یہ تقریریں ٹی وی تک محدود رکھیں۔
پی ٹی آئی کے ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ معاشی بحران سے نمٹنے کے لئے سابق نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کو حکومت کا حصہ بنانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ وزیر خزانہ اسد عمر کے علاوہ عبدالرزاق دائود کو مشیر تجارت بنایا گیا تھا۔ جبکہ چند روز پہلے فرخ سلیم نے معاشی امور پر وزیر اعظم کے مشیر کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔ اگر ڈاکٹر سلمان شاہ کو بھی شامل کر لیا گیا تو وہ اس ٹیم کے چوتھے رکن ہوں گے۔ پارٹی کے بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر سلمان شاہ کو لاکر اسد عمر کا کردار کم کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ وزیر اعظم کے چند قریبی لوگوں کے خیال میں فنانس میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر سلمان شاہ موجودہ معاشی بحران سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سلمان شاہ، مشرف دور میں وزیر خزانہ شوکت عزیز کی ٹیم کے سب سے متحرک رکن بھی ہوا کرتے تھے۔ وہ سابق آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کے داماد ہیں۔ ذرائع کے مطابق عبدالرزاق دائود، ڈاکٹر سلمان شاہ کو حکومتی ٹیم میں شامل کرنے کے خواہاں ہیں۔ دونوں مشرف دور میں ایک ساتھ کام کر چکے ہیں۔ مشرف دور کے پہلے تین برسوں میں عبدالرزاق دائود وزیر تجارت تھے۔ ذرائع کے بقول عمران خان، عبدالرزاق دائود کی بات کم ہی رد کرتے ہیں۔ عبدالرزاق دائود، شوکت خانم میموریل ٹرسٹ، عمران خان فائونڈیشن اور نمل یونیورسٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہیں۔ اگر مشیر تجارت اپنے پرانے دوست سلمان شاہ کو حکومتی ٹیم کا حصہ بنانے میں کامیاب ہو گئے تو اسد عمر کا کردار کم ہونے کے امکانات ہیں۔
ضمنی الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہونے والے اندرونی اختلافات بھی وزیر اعظم کے لئے پریشانی کا سبب ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اٹک میں تحریک انصاف کو ان کے اپنے رکن قومی اسمبلی میجر (ر) طاہر صادق نے ٹھیک ٹھاک ٹیکہ لگایا۔ 25 جولائی کے عام انتخابات میں طاہر صادق دو نشستوں این اے 55 اور این اے 56 سے جیتے تھے۔ پارٹی چیئرمین عمران خان کا اصرار تھا کہ طاہر صادق اپنی آبائی سیٹ این اے 55 خالی کر دیں۔ وہ اس حلقے سے امین اسلم کو ضمنی الیکشن لڑانا چاہتے تھے۔ جبکہ امین اسلم کا شمار طاہر صادق کے سخت سیاسی مخالفین میں ہوتا ہے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کے اصرار پر طاہر صادق نے اپنی آبائی سیٹ کے بجائے این اے 56 خالی کر دی۔ جس کا ٹکٹ پی ٹی آئی نے امین اسلم کے بجائے ملک خرم علی کو دیا، جنہوں نے نون لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔ طاہر صادق اس پر بھی ناراض تھے اور انہوں نے ضمنی الیکشن میں نون لیگ کے امیدوار ملک سہیل خان کی حمایت کی، یوں پی ٹی آئی کا امیدوار بھاری اکثریت سے ہار گیا۔ ذرائع کے مطابق اسی طرح ہمایوں اختر کی شکست میں پی ٹی آئی کے رہنما اور علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال کی ناراضگی کا بھی بڑا عمل دخل رہا۔ این اے 131 لاہور سے ولید اقبال ضمنی الیکشن لڑنا چاہتے تھے۔ تاہم اس کے برعکس پارٹی چیئرمین عمران خان نے ہمایوں اختر کو ٹکٹ دے دیا۔ جس پر ولید اقبال کا گروپ ضمنی الیکشن سے لاتعلق ہو کر بیٹھ گیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان کے سب سے قریبی پارٹی رہنما جہانگیر ترین بھی ایک بار پھر ناراض ہو گئے ہیں۔ اس بار ان کی ناراضگی کا سبب پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل ارشد داد کی تقرری ہے۔ واضح رہے کہ دسمبر 2017ء میں جہانگیر ترین کی نااہلی کے بعد سے پارٹی کا یہ اہم عہدہ خالی تھا۔ پارٹی قیادت کو توقع تھی کہ جہانگیر ترین کی نااہلی کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر نظرثانی کی اپیل کامیاب ہو جائے گی۔ اس انتظار میں یہ پارٹی عہدہ خالی رکھا گیا تھا۔ تاہم نظر ثانی کی اپیل مسترد ہونے پر پارٹی چیئرمین عمران خان نے ارشد داد کو سیکریٹری جنرل بنا کر یہ خالی پوسٹ پُر کر دی۔ ذرائع کے بقول چونکہ ارشد داد، جہانگیر ترین کے مخالف گروپ سے تعلق رکھتے ہیں، لہٰذا وہ اس تقرری پر ناراض ہو کر لندن چلے گئے تھے۔ اب واپس آ چکے ہیں۔ تاہم پارٹی اجلاسوں میں شرکت نہیں کر رہے۔ قبل ازیں تنقید کے باوجود وہ نہ صرف پارٹی اجلاسوں میں شریک ہو رہے تھے، بلکہ حکومت کے مشاورتی عمل کا حصہ بھی ہوتے تھے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment