شہید کی ماں کا ایمانی جذبہ

اس کے بعد ام ابراہیم چلی گئیں۔ دس ہزار دینار لے آئیں اور شیخ عبدالواحد سے کہنے لگیں: اے ابو عبید ! یہ اس لڑکے کا مہر ہے، یہ لیجئے اور مجاہدین کے اہم کاموں میں خرچ کیجئے۔ یہ کہہ کر ام ابراہیم گھر واپس آئیں اور ایک عمدہ گھوڑا اپنے بیٹے کے لئے خرید لیا، نیا عمدہ اسلحہ تیار کیا اور اپنے شہزادے بیٹے کو روانہ فرمایا۔
جب شیخ عبد الواحد جہاد کے لئے نکل پڑے تو نوجوان ابراہیم بھی دوڑے دوڑے جا رہے تھے اور قاری حضرات قرآن کریم کی یہ آیت خوشحالی سے پڑھ رہے تھے:
ترجمہ : ’’خدا تعالیٰ نے خرید لی مسلمانوں سے اس کی جان اور اس کا مال اس قیمت پر کہ ان کے لئے جنت ہے۔ لڑتے ہیں خدا کی راہ میں اور مارتے ہیں اور مرتے ہیں۔‘‘
راوی کا بیان ہے کہ جب ماں نے اپنے بیٹے کو رخصت کرنا چاہا تو ان کو کافور میں معطر ایک کفن دیا اور اپنے لخت جگر سے فرمانے لگیں کہ ’’اے میرے پیارے بیٹے! جب میدان کارزار میں دشمنوں سے مقابلہ شروع ہو جائے تو آپ یہ کفن زیب تن فرمائیں، لیکن یاد رکھنا کہیں حق تعالیٰ اپنے راستے میں تجھے کوتاہی یا سستی کرنے والا نہ پائے، پھر اس بہادر ماں نے اپنے گوشہ جگر کو سینے سے لگا کر اس کی پیشانی کو چوما اور فرمایا کہ میرے لخت جگر! حق تعالیٰ میری اور تیری ملاقات دنیا میں نہیں، بلکہ اپنے ہاں میدان قیامت میں کرائے۔‘‘
شیخ عبد الواحدؒ فرماتے ہیں کہ جب ہم دشمن کے علاقے میں پہنچ گئے اور عمومی تعارض کا اعلان ہو گیا اور لوگ کھلے میدان میں نکل آئے تو ابراہیم سب سے اگلے مورچہ میں کھڑا تھا، اس نے غضب کی جنگ لڑی اور میدان کارزار میں دشمنوں کے چھکے چھڑائے، کئی کفار کو واصل جہنم کیا اور مسلسل پیش قدمی میں لڑتے رہے، حتیٰ کہ دشمن کے بہت سارے لوگوں نے ان کو نرغے میں لے کے شہید کر دیا۔
شیخ عبد الواحدؒ فرماتے ہیں کہ جب ہم نے بصرہ واپس آنے کا ارادہ کیا تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابراہیم کی والدہ کو بیٹے کی شہادت کی خبر اس وقت تک مت دو کہ میں خود جا کر اس کی تعزیت کروں اور تسلی دوں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بے صبر ہو جائے اور اس کا اجر خراب ہو جائے۔ شیخ فرماتے ہیں کہ جب ہم فاتحین کی حیثیت سے واپس آئے اور بصرہ میں داخل ہونے لگے تو بصرہ کے سارے لوگ ہمارے استقبال کے لئے امنڈ آئے، انہیں لوگوں میں ابراہیم کی والدہ بھی آئیں۔ جب اس نے مجمع دیکھا تو کہنے لگیں: اے ابو عبیدہ! یہ تو بتائو کہ میرا ہدیہ قبول ہو گیا کہ نہیں؟ اگر قبول ہو گیا تو میں لوگوں سے مبارکباد لوں اور اگر ہدیہ رد ہو گیا تو میں لوگوں سے تعزیت وصول کروں۔
شیخ نے فرمایا کہ قسم بخدا تیرا ہدیہ اور تیری قربانی کو رب تعالیٰ نے قبول فرما دیا ہے، تیرا بیٹا شہداء کے ساتھ زندہ تابندہ کھا پی رہا ہے۔ اس پر ام ابراہیم سجدہ شکر میں گر پڑیں اور فرمایا کہ سب تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں، جس نے میرے گمان اور میرے ارادہ کو ناکام نہیں بنایا، بلکہ میری قربانی کو قبول فرمایا۔ یہ کہہ کر ام ابراہیم واپس چلی گئیں۔ رات گزار کر اگلی صبح سویرے ام ابراہیم شیخ عبدالواحدؒ کے پاس آئیں اور زور سے کہا السلام علیک یا ابا عبید! بشراک، اے ابو عبید تجھ پر سلامتی ہو، میں تجھے ایک خوشخبری سنانے آئی ہوں۔ شیخ نے کہا: خدا تجھے خوش رکھے، کیا قصہ ہے؟
ام ابراہیم نے کہا کہ میں نے رات کو اپنے لخت جگر ابراہیم کو ایک نہایت خوب صورت باغ میں دیکھا، وہ ایک سبز رنگ کے خیمے میں موتیوں کے تخت پر بیٹھا تھا اور اس کے سر پر ایک عمدہ تاج تھا اور وہ مجھ سے کہہ رہا تھا۔ امی جان ! مبارک ہو، مہر قبول کر لیا گیا اور دلہن کی رخصتی ہو گئی۔ (از فضائل جہاد)
بیشک جذبہ جہاد جسے نصیب ہو جائے، وہ عظیم ہے۔ وہ پھر دنیا سے نہیں، بلکہ آخرت سے محبت کرتا ہے اور حق تعالیٰ اس سے اپنے دین کی سربلندی کا کام لیتے ہیں، خدا کرے ہمیں بھی یہ عظیم جذبہ حاصل ہو جائے۔ آمین یا رب العلمین۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment