حبیبہ نے بھی وزیر خانم کو نکاح کرنے کا مشورہ دیا

اکبری خانم پالکی میں سوار ہوکر رخصت ہوئیں تو وزیر خانم نے حبیبہ کو بلا کر کہا: ’’صاحب عالم مرزا فتح الملک بہادر…؟‘‘۔
’’جی جی، سب انہیں جانتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں صورت شکل بھائو سبھائو میں بالکل ہمارے ظل الٰہی پر گئے ہیں، پر ایک بات میں نہیں‘‘۔ حبیبہ نے خفیف سی ہنسی ہنس کر کہا۔
’’وہ کون سی بات ہے بھلا؟‘‘۔
حبیبہ پھر ہنسی۔ ’’جی، ظل سبحانی کو نکاحوں کا بہت شوق ہے۔ پر فتح الملک بہادر کی ایک ہی بیوی تھیں۔ وہ گزر گئیں تو انہوں نے مرزا الٰہی بخش کی بیٹی سے شادی کی۔ سنا ہے ان بیوی سے کچھ بہت خوش نہیں ہیں۔ پر وہ اور کسی طرف رخ نہیں کرتے۔ تھوڑا بہت شاعری کا اور بہت کچھ خیال کا ذوق ہے۔ اسی میں محو رہتے ہیں۔ سنا ہے خیال کی کچھ نئی بندشیں بھی انہوں نے بنائی ہیں‘‘۔
’’کچھ… اور صحبت تو درگیر نہیں؟‘‘ وزیر نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
’’اوہی اللہ توبہ کیجئے۔ بڑے نمازی پرہیزگار ہیں۔ تیسوں روزے رکھتے ہیں۔ تیس ہزاری میں محرم کی چھبیل بھی چلواتے ہیں‘‘۔
’’میں تو سنے ہوں قلعے والوں کو بٹیر بازی کنکوے بازی چوسر پچیسی چھوڑ کچھ کام نہیں‘‘۔
’’خانم صاحب آخر ہے تو ایک ہی گھرانہ، ایک توے کی روٹی کیا چھوٹی کیا موٹی۔ جب حکومت نہیں تو انسان کیا کرے۔ پر خدا نے پانچوں انگلیاں یکساں نہیں بنائیں۔ فتح الملک بہادر، تو سنا ہے بے فاتحہ درود کوئی کام شروع ہی نہیں کرتے‘‘۔
’’تمہیں یہ سب کہاں سے پتہ لگا حبیبہ؟‘‘۔
’’اے لو خانم صاحب، یہ باتیں تو دلی کا بچہ بچہ جانے ہے۔ سب شاہزادوں سے زیادہ وہ شہر میں آتے جاتے ہیں۔ موئے فرنگیوں سے بھی رسم و راہ رکھتے ہیں، پر…‘‘۔ وہ تھوڑا ہچکچائی۔ ’’پر… آپ یہ سب کیوں پوچھتی ہیں؟‘‘۔
’’میں… میں ایک بڑی مشکل میں ہوں حبیبہ‘‘۔
حبیبہ کا دل دھک سے ہو گیا۔ اگر کوئی مشکل آ پڑی ہے تو ولی عہد سوئم بہادر کا کیا مذکور تھا؟ خانم صاحب کے پل پل کی مجھے خبر ہے، وہ کہیں آئیں نہ گئیں۔ کسی سے بھی کوئی تعلق کیا، سرسری جان پہچان کا بھی کوئی علاقہ ان کا نہ تھا۔ تو پھر بات کیا ہو سکتی تھی؟ کہیں نواب ضیاء الدین بہادر اپنی مطلب برآری کے لیے دبائو مرزا فتح الملک بہادر کا تو نہیں لارہے؟ یہ دیکھ کر حبیبہ کی گھبراہٹ اور بڑھی کہ وزیر خانم نے حبیبہ کے چہرے پر سے آنکھ ہٹالی تھی اور سر جھکا لیا تھا۔ شاید خانم صاحب کو ڈر تھا کہ میں اس معاملے میں ان کے کچھ کام نہ آسکوں۔ وہ بہت سوچ کر، ٹھہر ٹھہر کر بولی: ’’میری جان آپ پر قربان۔ خانم صاحب آپ ڈھارس رکھئے، مولا مشکل کشا کو یاد کیجئے۔ اللہ ہر مشکل کو آسان کر دے گا۔ میرے لائق جو بھی حکم ہو، میں دل و جان سے پورا کروں گی‘‘۔
وزیر کو احساس ہوا کہ اپنے انداز و الفاظ سے اس نے حبیبہ کو کچھ خوف زدہ کر دیا ہے۔ خوف زدہ وہ خود تو تھی، لیکن اس کی وجوہ آسانی سے بیان نہ ہو سکتی تھیں، اور حبیبہ کے لیے بہرحال خوف زدگی کی کوئی بات نہ تھی۔ اس نے ناحق ہی ایسا لہجہ اختیار کیا کہ حبیبہ گھبرا گئی۔
’’ن… نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ مجھے صحیح جواب کی راہ نہیں مل رہی۔ مرزا فتح الملک بہادر نے… صاحب عالم مرزا فتح الملک بہادر نے مجھ سے… مجھ سے نکاح کا ارادہ ظاہر کیا ہے‘‘۔
حبیبہ کے بدن میں سنسنی سی دوڑ گئی۔ صاحب عالم مرزا فتح الملک بہادر ولی عہد سوئم! سوئے ہوئے بختوں کا جاگنا اسے کہتے ہیں! توقیر بڑھے، افکار و آلام سے رہائی ملے، ملک ہند کے قلب میں امن و امان کے دن رات نصیب ہوں۔ سچ ہے اللہ جب دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے۔ حبیبہ کی چشم خیال کے سامنے زعفران اور سیندور سے رنگی ہوئی مستکوں، زربفت اور چاندی کی تارکشی سے بنی ہوئی سرد والی کے پٹوں اور ٹیکوں سے چمکتی ہوئی پیشانیوں، مرصع جھالر دار ریشمی کجریوں کے اوپر چاندی کی عماریوں، مرصع لباس پہنے ہوئے، چاندی یا سونے کے آنکس ہاتھوں میں لیے ہاتھیوں کو ہولتے ہوئے مہاوتوں کی قطار گزر گئی۔ آگے کے ہر ہاتھی پر زرق برق شاہزادے، بعد کے ہاتھیوں پر زرنگار اور مخملیں لباس پہنے ہوئے اور گلے میں نقرئی گھنٹی، چاندی کے میگھ دمبر اور سرخ چتر کے نیچے بادشاہ فلک بارگاہ اس پر سوار، خواصی میں امام جامع مسجد علامہ محمد شاہ بخاری، پیچھے مورچھل بردار، سامنے لال بانات کی وردیوں میں ملبوس درجنوں کڑکیت ہاتھوں میں برچھے اور سونٹے لیے کڑکا کہتے ہوئے، ان کے آگے دو رویہ مسلح و مکمل فوجیوں کی قطاریں۔ شاہ دیں پناہ کے ہاتھی کے ذرا پیچھے اور بائیں جانب ذرا ہٹ کر بیل کا ہاتھی جس پر سونے چاندی کے چھلوں سے بھری ہوئی ڈالیاں، ڈالیوں سے مٹھی بھر بھر کر چھلے نکالتے اور رعایا کو لٹاتے ہوئے چار چوبدار… بادشاہ جمجاہ کے ہاتھی کے ذرا پیچھے بائیں جانب جگمگاتی ہوئی جھلا بور جھول پہنے ہوئے ہاتھی پر مغرق اور مکلل بجواہر لباس میں شاہزادہ، پھولوں کے سہرے اور مقیش اور بادلے کے جھم جھم کرتے سہرے سے لدا ہوا… کیا یہ صاحب عالم مرزا محمد سلطان غلام فخرالدین فتح الملک بہادر ولی عہد سوئم کی بارات کا جلوس ہے؟ اور یہ جلوس میری خانم صاحب کے دروازے اترے گا…!۔
’’کیا ہوا، یوں گم سم کہاں چلی گئیں؟‘‘ وزیر کی آواز اس کانوں میں یوں آئی جیسے کسی نے دور سے پکار کر جگا دیا ہو۔ ’’سانسے میں تو ہم ہیں اور سانس روک کر تم بیٹھ گئیں‘‘۔ وزیر نے ہلکی سی ہنسی ہنس کر کہا۔
’’توبہ ہے خانم صاحب‘‘۔ حبیبہ نے شرمائے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’میں اپنا آپا ہی کھو بیٹھی تھی۔ پہلے تو آپ نے ڈرا ہی دیا تھا، اور پھر ایسی نوید سنائی کہ میرے تو اوسان بجا نہیں رہے‘‘۔
’’چلو چلو‘‘۔ وزیر نے کچھ چڑچڑے لہجے میں جواب دیا۔ ’’اوسان خطا ہونے کی کون سی بات ہے، الجھن میں تو میں پڑ گئی ہوں‘‘۔
’’الجھن، کاہے کی الجھن خانم صاحب؟‘‘۔ حبیبہ ہمت کر کے ذرا قریب آئی اور وزیر کی بلا گرداں ہو کر بولی۔ ’’یہ تو ایسا بر آپ کو مل رہا ہے کہ ساری دلی رشک کرے اور بڑی بڑی شہزادیاں زہر کھائیں۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے، اب آپ کے دن پھرنے والے ہیں اور وہ بھی اس رنگ کہ انشاء اللہ قیامت تک آپ کو کسی چیز کی حاجت ہو گی نہ کمی ہو گی‘‘۔
’’حبیب النسا بیگم‘‘۔ وزیر کے لہجے میں اب بھی چڑچڑاہٹ تھی۔ ’’تم کو ہری ہری ہی سوجھتی ہے۔ ذرا اگلے کی آنکھ سے بھی دیکھتیں تو پتہ لگتا کہ کیا رنگ ہے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment