نذر الاسلام چودھری
بھارت کے تاریخی خطے میوات میں مودی سرکار نے مساجد اور مدارس ائمہ کو دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔ مسلمانوں کو مساجد یا کھلے مقامات پر نماز پڑھنے سے روکنے کیلئے لاؤڈ اسپیکر سمیت واٹس ایپ پر دھکمی آمیز پیغامات بھیجے جارہے ہیں۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کو مسلمانوں کا زیر تعمیر جامع مسجد خلفائے راشدین میں نماز جمہ پڑھنا پسند نہیں، جس کے باعث اس کی تعمیر کیلئے پاکستان سے فنڈز آنے کا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ تاہم بھارتی پریمیئر انٹیلی جنس و تفتیشی ایجنسی اے این آئی کو تفتیش تین ہفتے مکمل ہوجانے کے باوجود ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا، جس سے وہ عظیم الشان مسجد کو بند کرا سکے۔ اسی طرح گرفتار کئے جانے والے مسجد کے امام ایم سلمان اور ان کے دو رفقائے کار ایم سلیم اور عبدالسجاد وانی کیخلاف چالان بھی نہیں پیش کیا جاسکا ہے۔ لیکن بھارتی تفتیشی ایجنسی کا میڈیا کی مدد سے دعویٰ ہے کہ ہریانہ کے ضلع کی تاریخی مسجد کی مالی اعانت پاکستانی امدادی تنظیم فلاح انسانیت فائونڈیشن کر رہی ہے، جس کی سرپرستی حافظ سعید کرتے ہیں۔ لیکن مقامی مسلمانوں اور ہندوئوں نے بھارتی تفتیشی اور انٹیلی جنس ایجنسی کے دعوئوں کو مسترد کردیا ہے۔ ایک درجن مسلمانوں اور گائوں کے سرپنچ سمیت کئی معتبر ہندوئوں نے بھارتی میڈیا نمائندوں کو بتایا ہے کہ جس مسجد میں حافظ سعید کا پیسہ یا چندہ لگانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے، وہ مسجد 1998ء میں تعمیر ہونا شروع ہوئی تھی۔ اس کی تعمیر موجودہ امام مسجد ایم سلمان کے والد نے شروع کی تھی، کیونکہ ان کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ رب کا گھر بنائیں۔ گائوں کے مکھیا لکھو مہاراج نے مسجد کی زیر تعمیر حالت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سوال اُٹھایا کہ اگر پاکستان سے پیسہ آتا تو مسجد بیس سال سے نامکمل تو نہ ہوتی۔ ایک مقامی مسلمان نصرالدین نے امام مسجد کو انتہائی شریف اور خدا ترس انسان بتایا، جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر کیلئے اپنا ذاتی اور آبائی گھر تک فروخت کر ڈالا۔ نصر الدین نے اپنے ہاتھوں میں پکڑی ان کے گھر کی فروختگی کی دستاوات دکھائیں اور کہا، یہ امام صاحب کے گھر کی فروخت کے کاغذات ہیں۔ اس بات کی تائید بوڑھے میواتی مزدور نے بھی کی اور بتایا کہ وہ اس وقت تیس بتیس سال کے جوان مزدور تھے اور امام مسجد کے والد کی جانب سے مزدور مقرر کئے گئے تھے۔ ضلع کلیکٹر اور ڈپٹی کمشنر کو جمع کرائے جانے والے مقامی ہندوئوں اور مسلمان عطیہ کنندگان نے ایک تحریری درخواست میں باور کرایا ہے کہ امام مسجد سلمان صاحب جانتے بوجھتے لشکر طیبہ کا چندہ کیسے جمع کرسکتے ہیں حالانکہ حقیقت یہی ہے کہ اس مسجد کی تعمیر و تزئین کیلئے سلمان صاحب نے سب سے پہلے اپنا گھر فروخت کیا اور ساری رقم اس مسجد میں لگا دی۔ مقامی مسلمانوں نے عالمی و مقامی میڈیا نمائندگان کو بتایا کہ سلمان صاحب خلیجی ممالک جاتے ہیں، جہاں ان کے والد کے مداح اور پرانے لوگ رہتے ہیں اور وہ مسجد خلفائے راشدین کے بارے میں اچھی طرح ادراک رکھتے ہیں کہ یہ مسجد زیر تعمیر ہے، یہی لوگ امام مسجد سلمان صاحب کو مسجد کی تعمیر کیلئے رقوم بھجواتے ہیں اور گزشتہ پانچ برسوں میں 70 لاکھ کے لگ بھگ رقم انہیں دی گئی، جو انہوں نے بلا کم و کاست مسجد کی تعمیر پر لگا دی۔ گرفتار امام مسجد کے بارے میں بھارتی انٹیلی جنس نے خاموشی اختیار کی ہے کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے، لیکن ان کیخلاف کسی بھی عدالت میں کوئی مقدمہ یا چالان نہیں پیش کیا گیا۔ جبکہ رابطہ کرنے پر اے این آئی کا دعویٰ ہے کہ حوالہ اور ہنڈی نظام سے رقوم یا چندوں کی تحقیق چل رہی ہے اور سلمان، سلیم اور سجاد تینوں حضرات سے مسجد کے چندوں کی دستاویزات کی چھان بین بھی جاری ہے۔ ادھر مقامی مسلمان نوجوان ارشاد احمد نے بتایا ہے کہ سارا الزام اور کیس جھوٹ پر مبنی ہے، کسی بھی طور لشکر یا جماعۃ الدعوۃ نے مسجد کی تعمیر میں حصہ نہیں لیا، یہ تمام حربے مسلمانوں کو دبانے اور مساجد کی تعمیر سے روکنے کیلئے اختیار کئے جارہے ہیں۔ ارشاد کا کہنا تھا کہ مسجد کی 10 ایکڑ زمین 85 دیہات کے مسلمانوں کا عطیہ ہے، لیکن اس پر قبضہ گروپوں نے دکانیں اور گھر بنا لئے ہیں۔ ہم زمین واگزار کروانا چاہتے ہیں، لیکن قبضہ گروپ بھارتی ایجنسی کے پاس چلا گیا اور یوں سارا الزام لشکر طیبہ، حافظ سعید اورپاکستانی چندوں پرآگیا۔ اس موقع پر گائوں میں مسجد کے باہر موجود دیگر مقامی مسلمانوں نے بھی خلفائے راشدین مسجد کی تعمیر کے حوالہ سے بھارتی تفتیشی ایجنسی اے این آئی کے دعویٰ کہ تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ابھی تک اس مسجد پر دو کروڑ کی رقم اور سینکڑوں مزدوروں کی خدمت لگ چکی ہے۔ لیکن ان کی رائے میں بیشتر حصہ کی تعمیر مقامی مسلمانوں اور ہندوؤں کی جانب سے عطیہ کی جانے والی رقوم اور سامان سے ممکن ہوپائی ہے۔ راکیش نامی مقامی ہندو نے بتایا کہ میں کم از کم چار ہندو زمینداروں کو جانتا ہوں جنہوں نے مسجد خلفائے راشدین کی تعمیرات میں لاکھوں روپیہ کا تعمیری سامان دیا اور اس کی تعمیر میں ہندوئوں کا بھی حصہ ہے۔ اس مسجد کے اندرونی حصہ میں پندرہ ہزار نمازی نماز ادا کرسکتے ہیں اور ہر جمعہ کو اطراف و اکناف سے ہزاروں مسلمان نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے اس مسجد میں تشریف لاتے ہیں۔ ایک مقامی نوجوان نے کہا کہ سارا کیا دھرا مودی حکومت کا ہے، مقامی انتہا پسند ہندوئوں کو اس مسجد میں نماز جمعہ کیلئے ہزاروں مقامی و غیر مقامی مسلمانوں کا جمع ہونا ایک آنکھ نہیں بھاتا، اسی لئے لشکر طیبہ اور حافظ سعید کے چندوں کا نام لے کر گمراہ کیا جارہا ہے اور دور دراز سے آنے والے مسلمانوں کو مقامی شر پسند ہندوئوں کی جانب سے لائوڈ اسپیکرز پر اور سماجی رابطوں کی سائیٹس کے ذریعے خوف زدہ کرکے منع کیا جارہا ہے کہ وہ نماز جمعہ کیلئے مسجد خلفائے راشدین میں نہ آئیں، کیونکہ انٹیلی انٹیلی جنس اور پولیس کے خفیہ اہلکار ان کو پکڑ لیں گے۔ ادھر میواتی علمائے کرام نے بتایا ہے کہ ہریانہ کی مسجد کے لشکر طیبہ لنک کا شور مچانے والی بھارتی پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں نے میوات ضلع میں مساجد اور مدارس کی اسکریننگ کے نام پر آئمہ مساجد و مدارس کی زندگی اجیرن کردی ہے اور آئے دن چھاپے مار کر کبھی مسجد کا چندوں کا ریکارڈ جمع کیا جاتا ہے تو کبھی امام و خطیب حضرات کی اسناد چیک کی جاتی ہیں۔ ان کو پولیس اسٹیشن بلا کر بے توقیر کیا جاتا ہے اور گھنٹوں بٹھا کر دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ اگر میوات کی مساجد اور مدارس میں پاکستانی ہاتھ یا فنڈنگ پائی گئی تو اس کے سنگین نتائج نکلیں گے۔ اس سے میوات بھر کے مسلمانوں اور بالخصوص آئمہ مساجد و مدارس میں شدید اضطراب پھیلا ہوا ہے۔
٭٭٭٭٭