آپریشن سے بچوں کی پیدائش عالمی وبا بن گئی

ایس اے اعظمی
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے ایک ریسرچ اسٹڈی کی توثیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ بچوں کی آپریشن کے ذریعے پیدائش میں تیزی عالمی وبا بن چکی ہے اور ترقی پذیر و ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کی آپریشن سے پیدائش کا عمل انتہائی تیزی سے پھل رہا ہے، جس کی وجہ سے دنیا بھر میں مائوں کی صحت اور بچوں کی افزائش کے حوالے سے سنگین خطرات پائے جاتے ہیں۔ تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عالمی سطح کے ایک سروے کی مدد سے پتا چلا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں 30 فیصد بچے سی سیکشن یعنی آپریشن سے پیدا ہو رہے ہیں اور اس میں روز بروز اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ عالی ادارہ صحت کی ایک ڈاکٹر مارلین چیمبر لین کا استدلال ہے کہ ترقی پذیر اور ایشیائی ممالک میں وقت کی بچت اور دیگر عوامل کو بنیاد بنا کر خواتین کو آپریشن کی جانب دھکیلا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں درد زہ اور وقت کے ضیاع کا سامنا تو نہیں ہوتا، لیکن ایسے کیسوں میں اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ جبکہ نومولود سمیت خواتین کیلئے طبی مسائل میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر چیمبر لین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کی گائناکولوجسٹ ڈاکٹرز کو سمجھانا ہوگا کہ وہ سی سیکشن کے بجائے نارمل ڈلیوری پر فوکس کریں اور ان کی پہلی ترجیح قدرتی طرز ولادت ہونی چاہئے جبکہ اس بارے میں عوام کو بھی آگہی دینی چاہئے۔ اے بی سی میڈیکل نیوز نے انکشاف کیا ہے کہ آسٹریلیا سمیت بیشتر یورپی ممالک میں سی سیکشن کیسوں سے بچوں کی پیدائش کی شرح 30 فیصد تک جا پہنچی ہے جبکہ برازیل میں یہ شرح آسمان کو چھو رہی ہے جہاں 65 فیصد بچے آپریشن سے پیدا ہورہے ہیں۔ چین میں یہ شرح 42 فیصد اور بھارت میں 37 فیصد ہے۔ اقوام متحدہ اور بلجیم یونیورسٹی کے ماہرین کی مشترکہ ریسرچ میں کہا گیا ہے کہ ہر سال آپریشن سے بچوں کی پیدائش کی شرح میں 3.7 فیصد سے اضافہ ہورہا ہے۔ رپورٹ میں 2000ء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اُس وقت تک دنیا بھر میں سی سیکشن کیسوں کی تعداد 7 فیصد تک تھی جو 2017ء تک 31 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور اس میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ اس شرح کو کم کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ کنگز کالج لندن کے پروفیسر اور محقق جین سندال کا استدلا ل ہے کہ دنیا بھر میں بچوں کی پیدائش کے عمل میں آپریشن کی ضرورت معدودے چند کیسوں میں پڑتی ہے، جس کا فیصلہ متعلقہ ڈاکٹرز اور گائنا کولوجسٹ مل کر کرتے ہیں۔ لیکن اس وقت وبا کی شکل میں بڑھتے ہوئے سی سیکشن کیسوں کا معاملہ سنگین ترین ہے، جس کی روک تھام کی جانی چاہئے۔ عالمی تحقیقی رپورٹ میں حکومتوں اور اداروں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ دنیا بھر، بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں سی سیکشن کی تعداد میں کمی کیلئے کوششیں کریں۔ عالمی جریدے، لین سیٹ نے بتایا ہے کہ فیشن ایبل اور تعلیم یافتہ خواتین میں بچوں کی نارمل ڈلیوری کے بجائے آپریشن کرانا اسٹیٹس سمبل بن چکا ہے۔ دنیا بھر میں بچوں کی پیدائش کے 85 فیصد کیس نارمل ڈلیوری والے ہوتے ہیں اور محض 15 فیصد کیسوں کی ٹیکنیکل کیفیت کے سبب ڈاکٹر حضرات آپریشن کا مشورہ دیتے ہیں۔ اسٹڈی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2000ء میں زچگی کیسوں کی کل تعداد کا 12 فیصد کیس آپریشن کی جانب گئے، تاہم یہ تعداد اگلے دس سے پندرہ برسوں میں 21 فیصد تک جا پہنچی، جس میں اس وقت بھی تیزی ریکارڈ کی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی طور پر مضبوط خواتین کی اولین کوشش آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش ہوتی ہے، جس کا ایک مطلب فیشن ایبل اور ماڈرن سوچ کا حامل ہونا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے ایک ڈاکٹر رچرڈ سوفین کا کہنا ہے کہ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ طبی پیچیدگیوں سے بچائو کیلئے آپریشن کارگر ہوتا ہے، لیکن دنیا بھر میں اس حوالے سے غیر ضروری طور پر اُٹھائے جانے والے اقدامات کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، جو آگے چل کر طبی اور نفسیاتی مسائل کا سبب بنتے ہیں اور میڈیکل کے حوالے سے مزید اخراجات کی وجہ بنتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سی سیکشن کیسوں کی وجہ سے 170 ممالک میں شدید قسم کی ناہمواریاں محسوس کی گئی ہیں۔ اس حوالے سے کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 60 فیصد ممالک میں بچوں کی پیدائش کے کیسوں میں غیر ضروری طور پر آپریشن کا فیصلہ کیا گیا، لیکن 22 فیصد ممالک میں طبی پیچیدگیوں کے باوجود ڈاکٹرز کی جانب سے سی سیکشن کے فیصلوں سے اجتناب کیا گیا۔ جرمن جریدے، ڈوئچے ویلے نے انکشاف کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی ریسرچ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم تعلیم یافتہ علاقوں میں ڈاکٹرزکی یہ خفیہ پالیسی ہے کہ وہ خواتین کو نارمل ڈلیوری کی جانب راغب کرنے کے بجائے انہیں آپریشن کی جانب لاتے ہیں، تاکہ پیسے کمائے جاسکیں۔ لیکن اس ضمن میں تحقیق یہ بتاتی ہے کہ خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد ایسی ہے کہ جو غیر ضروری طور پر سی سیکشن کراتی ہیں، حالانکہ تھوڑی سی کوشش کے نتیجے میں قدرتی پیدائش کا عمل مکمل کیا جاسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر عالمی سطح پر ڈاکٹرز کی جانب سے خواتین کو مشاورت کے عمل سے گزارا جائے اور ان کو طبی پیچیدگیوں سمیت مستقبل کے مسائل سے آگاہ کیا جائے تو انہیں نارمل ڈلیوریز کی جانب راغب کیا جاسکتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment