معارف و مسائل
کُلُّ مَنْ عَلَیھَا… علیہا کی ضمیر ارض کی طرف راجع ہے، جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے، اس کے علاوہ زمین ان عام اشیاء میں سے ہے، جس کی طرف ضمیر راجع
کرنے کے لئے پہلے مرجع کا ذکر لازم نہیں ہے، معنی اس کے یہ ہوئے کہ جو جنات اور انسان زمین پر ہیں سب فنا ہونے والے ہیں، اس میں جن و انس کے ذکر کی تحضیص اس لئے کی گئی ہے کہ اس سورت میں مخاطب یہی دونوں ہیں، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آسمان اور آسمان والی مخلوقات فانی نہیں ہیں، کیونکہ دوسری آیت میں حق تعالیٰ نے عام لفظوں میں پوری مخلوقات کا فانی ہونا بھی واضح فرما دیا ہے۔
وَجْہُ رَبِّکَ… وجہ سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک ذات حق سبحانہ و تعالیٰ ہے اور ربک میں ضمیر خطاب رسول اقدسؐ کی طرف راجع ہے، یہ حضرت سید الانبیاؐ کا خاص اعزاز و اکرام ہے کہ آپؐ کو خاص مقام مدح میں کہیں تو عبدہ کا خطاب ہوا ہے اور کہیں رب الارباب نے اپنی ذات کی نسبت حضورؐ کی طرف کر کے ربک سے خطاب فرمایا ہے۔
مشہور تفسیر کے مطابق معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے جن میں جن و انس بھی داخل ہیں، سب کے سب فانی ہیں، باقی رہنے والی ایک ہی ذات حق جل و علا شانہ کی ہے۔
فانی ہونے سے مراد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ سب چیزیں اس وقت بھی اپنی ذات میں فانی ہیں، ان میں دوام و بقاء کی صلاحیت نہیں اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ قیامت کے روز یہ سب چیزیں فنا ہو جائیں گی۔
اور بعض حضرات مفسرین نے وَجْہُ رَبِّک کی تفسیر جہت اور سمت سے کی ہے، اس صورت میں معنی آیت کے یہ ہو جائیں گے کہ کل موجودات میں بقا صرف اس چیز کو ہے جو حق تعالیٰ کی جانب میں ہے، اس میں اس کی ذات و صفات بھی داخل ہیں اور مخلوقات کے اعمال و احوال میں جس چیز کا تعلق حق تعالیٰ کے ساتھ ہے وہ بھی شامل ہے، جس کا حاصل یہ ہوگا کہ انسان اور جن اور فرشتے جو کام خدا کے لئے کرتے ہیں وہ کام بھی باقی ہے، وہ فنا نہیں ہوگا (کذا فی المظہری والقرطبی والروح) اور اس مفہوم کی تائید قرآن مجید کی ایک آیت سے بھی ہوتی ہے ’’جو کچھ تمہارے پاس ہے مال و دولت ہو یا قوت و طاقت یا راحت و کلفت یا کسی کی محبت و عداوت یہ سب چیزیں فنا ہونے والی ہیں اور جو کچھ خدا کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔‘‘ خدا کے پاس انسان کے اعمال و احوال میں سے وہ چیز ہے، جس کا تعلق حق تعالیٰ سے ہے کہ اس کو فنا نہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭