موت کے سفر سے واپسی

جب ہم امدادی کشتیوں کو اپنے سے قریب آتے ہوئے دیکھتے تو خوشی سے اچھلنے لگتے، لیکن یہ خوشی اس وقت مر جاتی جب ہم کشتیوں کو پلٹتے ہوئے دیکھتے۔ اس وقت ہم الٹی ہوئی کشتی پر چڑھ کر چیختے، لیکن ہماری آوازیں سمندر کے پانی میں ڈوب جاتیں، بغیر اس کے کہ اس کو بچانے والوں کے کانوں تک پہنچ سکنے کی آزادی میسر ہوتی، یہاں تک کہ قریب تھا کہ امید کا دامن چھوڑ دیتے اور شکست کھا بیٹھتے۔ گھڑی اس وقت ساڑھے گیارہ بجنے کا اعلان کر رہی تھی۔
ریچرڈ نے بات جوڑتے ہوئے کہا: ’’پھر ہمارے سامنے سے ایک بڑی لانچ گزری، لیکن اس نے تو ہمیں بالکل دیکھا ہی نہیں، جیسا کہا جاتا ہے کہ اس نے جلتی پر تیل کا کام دیا۔ اس نے ہمیں مزید کئی گنا نفسیاتی تکلیف بخشی اور پانی متلاطم ہوتا رہا اور ہمارے چہروں کو جھانکتا رہا۔ عماد کے روانہ ہونے کے چار گھنٹے بعد دوسرے دن جمعے کی صبح ہم نے کشتیوں کو رہنمائی مرکز کی طرف رخ کرتے دیکھا۔ اس وقت ہمیں انتہائی خوشی اور مسرت ہوئی اور ہمیں یہ اندازہ ہوا کہ وہاں ریسرچ سینٹر ہے، جو ان کو عملی تجربات کے بعد حاصل ہوا ہے۔
ان فوائد نے ہماری زندگی کو بچا لیا، وہ کشتیاں ان جگہوں پر تھیں، جن کے بارے میں عماد سوال کر رہا تھا، وہ عماد جس نے خطروں کا سامنا کیا اور خوفناک شارک مچھلیوں کو چیرتا ہوا نکل گیا، بغیر کسی چیز کی پروا کئے ہوئے، اس کے تھوڑی ہی دیر بعد کشتیوں نے ہمارا رخ کر لیا، لیکن ہماری آس کے دیئے دوبارہ بجھ گئے، جب انہوں نے دوسری طرف رخ کر لیا۔ میں نے اپنے دوستوں سے کہا: ’’اس وقت ہمارا دیکھا جانا ناممکن کاموں میں سے ہے، کیونکہ ہم اندھیرے میں ہیں، چنانچہ ہم نے سات بجے صبح تک اس حالت میں رہنے کو ترجیح دی، تاکہ سورج کی روشنی حفاظتی کشتی کو ہمارے دیکھنے میں مدد دے۔ اس کے باوجود کہ جلانے والی ڈوری ہمارے پاس تھی کہ ہم کوسٹ گارڈوں کے لیے اپنی جگہ کی نشاندہی کر دیں، لیکن ہم اس کو جلا نہیں سکتے تھے، کیونکہ وہ گیلی ہو چکی تھی اور دوبارہ جل نہیں سکتی تھی اور یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ہمارے نصیب خراب تھے۔
میں عماد کے چلے جانے کے بارے میں اور اپنی لڑکیوں اور ان کے مستقبل کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اگر ان پر کوئی مصیبت آئی تو وہ کیا کریں گی؟ اور رہا مارٹی تو وہ تو صرف اپنے بارے میں سوچ رہا تھا اور اس پریشانی کی حالت میں اپنی بیوی اور پانچ بچوں کو یاد کررہا تھا کہ ان کی اس وقت کیا حالت ہو گی؟ کیونکہ وہ اس سے پہلے گھر پہنچنے کے مقررہ وقت سے کبھی لیٹ نہیں ہوا تھا تو ان کا کیا حال ہو گا، جب وہ ان کے پاس پہنچے گا نہیں۔
راحت کی علامت:
سمندر کی سطح پر بیس گھنٹے گزارنے کے بعد جمعہ کے دن ساڑھے تین بجے ہم نے کوسٹ گارڈوں کی ماتحت کشتیوں کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ وہ لوگ لائوڈ اسپیکر پر اعلان کررہے تھے کہ وہ ہماری طرف آرہے ہیں۔ ہمیں معلوم ہو گیا کہ عماد ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ان کو ہمارے جگہ دکھا رہا ہے۔ زندگی کی طرف دوبارہ لوٹتے ہوئے ہماری خوشی ناقابل بیان تھی۔ ان کے اس جگہ پہنچنے کے بعد کشتیاں ہمارے قریب نہیں ہو سکتی تھیں، کیونکہ سوراخ گھاٹی ریسکیو ٹیم/ حفاظتی عملے کو روک رہی تھی، اس لیے کہ کشتی بڑی تھی اس جگہ نہیں پہنچ سکتی تھی تو حفاظتی عملے نے چھوٹی کشتیاں منگوائیں اور آدھے گھنٹے بعد وہ کشتیاں ہم تک پہنچ گئیں۔ ہم ایک کشتی میں بیٹھ گئے، کوسٹ گارڈوں کے آدمیوں نے ہمارے سامنے کھانے پینے اور بچائو کے آلات پیش کئے۔ ہم اس کشتی پر موجود اپنے گھر والوں سے ملے، تاکہ ان کو یہ احساس دلا سکیں کہ ہم زندہ ہیں۔ میں نے عماد کو گود میں لے لیا اور اس کو چوما اور اس کی اس عظیم جرأت پر تعریف کی، کیونکہ اس کا یہ جان سے کھیلنا ناقابل بیان ہے۔ یہ ایک ایسے نوجوان کی قربانی تھی، جو ابھی اپنی عمر کے تیسویں حصے میں تھا۔ وہ اس کے لیے نفسانی اور جسمانی طور پر تیار نہیں تھا اور اس کے پاس غوطہ خوری کے آلات بھی نہیں تھے، چنانچہ سب عماد کو گلے لگانے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ رہا زکی تو وہ اپنے بھائی کو گود میں لے کر رو پڑا اور اس کی سلامتی پر حق تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ (الفرج بعد الشدۃ الضیقۃ، مولف: شیخ ابراہم الحازمی)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment