میں عجیب حیرت میں تھا۔ مولانا کلیم صاحب کی محبت جیسے جادو ہو، میں ایسے خاندان کا ممبر ہوں، جس کی گھٹی میں مسلمانوں، مسلم بادشاہوں اور اسلام کی دشمنی پھیلائی گئی ہے اور اس خبر کے سلسلے میں حد درجہ برہم ہو کر میں گویا مخالف انکوائری کیلئے فیصلہ کر کے پھلت گیا تھا اور مولانا صاحب مجھے نہ اسلام کے مطالعہ کا کہتے ہیں، نہ غلط فہمیوں کو دور کرنے کیلئے کہتے ہیں۔ بس سیدھے سیدھے مسلمان ہونے کا کہہ رہے ہیں اور میری انتر آتما، میرا ضمیر گویا مولانا صاحب کی محبت کے شکنجے میں جیسے بالکل بے بس ہوگیا۔
میں نے کہا کہ بات تو آپ کی بالکل سادی اور سچی ہے اور ہمیں سوچنا ہی پڑے گا، مگر یہ فیصلہ اتنی جلدی کرنے کا تو نہیں کہ اتنا بڑا فیصلہ اتنی جلدی میں لے سکیں۔ مولانا صاحب نے کہا سچی بات یہ ہے کہ آپ اور ہم سب مالک کے سامنے ایک بڑے دن حساب کیلئے اکٹھے ہوں گے تو اس وقت اس سچائی کو آپ ضرور پائیں گے کہ یہ فیصلہ بہت جلدی میں کرنے کا ہے اور اس میں دیر کی گنجائش نہیں اور آدمی اس میں جتنی دیر کرے گا، پچھتائے گا۔ پتہ نہیں پھر زندگی فیصلہ لینے کی مہلت دے یا نہ دے اور موت کے بعد پھر افسوس و پچھتاوے کے علاوہ آدمی کچھ نہیں کر سکتا ہے۔ بالکل یہ بات سچ ہے کہ ایمان قبول کرنے اور مسلمان ہونے سے زیادہ جلد بازی میں کرنے کا کوئی اور فیصلہ ہو نہیں سکتا، ہاں اگر آپ ہندو دھرم کو مکتی کا راستہ سمجھتے ہیں تو پھر مجھے ہندو بنانے میں اتنی ہی جلدی کرنی چاہیے، جس طرح مسلمان بننے کیلئے جلدی کرنے کو کہہ رہا ہوں۔
مجھے خیال ہوا کہ جس وشواس (مضبوط اعتماد و یقین) کے ساتھ مولانا صاحب مسلمان ہونے کو کہہ رہے ہیں۔ اس اعتقاد کے ساتھ میں ہندو بننے کو نہیں کہہ سکتا، بلکہ سچی بات یہ ہے کہ ہم اپنے مذہب کو کہی سنائی رسموں پر آدھارت کہانیوں کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ جب ہمارا ہندو دھرم پر وشواس کا یہ حال ہے تو یہ کسی کو کس بل بوتے ہندو بننے کو کہہ سکتے ہیں؟ میرے اندر سے جیسے کوئی کہہ رہا تھا، رام کمار اسلام میں ضرور سچائی ہے، جو مولانا صاحب کے اندر یہ وشواس ہے۔
مولانا صاحب کبھی بہت خوشامد، کبھی ذرا زور سے بارہا ہم لوگوں سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونے کیلئے کہتے رہے۔ جب مولانا صاحب خوشامد کرتے تو مجھے ایسا لگتا جیسے کسی زہر کھانے کا ارادہ کرنے والے یا آگ میں کودنے والے کو ہلاکت سے بچانے کیلئے کوئی ہمدرد، کوئی ماں خوشامد کرتی ہے۔
مولانا صاحب ہمیں بار بار کلمہ پڑھنے پر زور دیتے رہے۔ میں نے وعدہ کیا، ہم لوگ ضرور غور کریں گے، ہمیں پڑھنے کیلئے بھی دیجئے۔ مولانا نے اپنی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں‘‘ دی اور ہمیں سو بار روزانہ یا ہادی، یا رحیم اس وشواس کے ساتھ پڑھنے کو کہا کہ وہ مالک راستہ دکھانے والا، سب سے زیادہ دیا کرنے والا ہے۔ آنکھیں بند کر کے اس مالک کو جب آپ ان ناموں سے یاد کریں گے، آپ کیلئے اسلام کے راستے ضرور کھول دیں گے۔ اصل میں دلوں کو پھیرنے کا فیصلہ اسی اکیلے کا کام ہے۔
میں نے مولانا صاحب سے کہا: اچھا ہے۔ ماحول گرم ہو رہا ہے۔ آپ اخبارات میں اس کا کھنڈن نکلوا دیں۔ مولانا صاحب نے کہا: میں نے ان کو دینی اور ان کا قانونی حق سمجھ کر کلمہ پڑھوایا ہے۔ جھوٹ کھنڈن کرانا کس طرح ہو سکتا ہے؟ میری رائے یہ ہے کہ آپ کو بھی کسی جھوٹ بات کو چھپانا نہیں چاہیے۔ میں نے کہا: اچھا ہم خود کر دیں گے۔ ہم لوگ واپس چلے گئے تو راستے میں میرے ہمراہ دونوں انسپکٹرز مجھ سے بولے: سر دیکھا کتنے سچے اور سجن آدمی ہیں، ہم لوگوں کا تو دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا۔ مولانا صاحب تو ایسے آدمی ہیں کہ کبھی کبھی شانتی کیلئے ان کی سنگتی میں آکر بیٹھا جائے، کوئی لاگ نہیں، لپیٹ نہیں، صاف صاف باتیں ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭