پرائیویٹ اسکولز پٹشنرز کے بچوں کو ہراساں کرنے لگے

محمد زبیر خان
بڑے پرائیویٹ اسکولوں کی جانب سے فیسوں کے تنازعہ پر بچوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پرائیویٹ اسکولوں کیخلاف پٹیشنز دائر کرنے والوں کے بچوں کو بیکن ہائوس، دی سٹی اسکول، سٹی پبلک اسکول، سینٹ گرگیری، جنریشن اسکول، فائونڈیشن پبلک اسکول، ہیڈ اسٹار اور دیگر اسکولوں کی جانب سے عدالتوں کے واضح احکامات کے باوجود پرچہ دینے سے روکا گیا اور والدین کو فون کرکے کہا گیا کہ بچوں کو اسکول سے واپس لے جائیں۔ پرائیویٹ اسکولز انتظامیہ کی جانب سے والدین کو دھمکیاں دی گئیں کہ ان کے بچوں کو کیمبرج اور بورڈ کے امتحانات میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پرائیویٹ اسکولز کیخلاف لاہور میں والدین کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں، جبکہ کراچی اور پشاور میں سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ کراچی، لاہور اور پشاور ہائی کورٹ نے سندھ، پنجاب اور خیبرپختون میں نجی اسکولوں کی فیسوں کے حوالے سے دائر کردہ رٹ پیٹیشنز پر فیسوں میں مقرر کردہ حد سے زائد سالانہ اضافے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ عدالتوں نے تینوں صوبائی حکومتوں کو حکم دیا ہے کہ مجاز اتھارٹی کی وساطت سے نجی اسکولوں کی فیسیں مقرر کریں۔ پٹیشن دائر کرنے والے والدین کے مطابق خیبر پختون میں عدالت نے تین فیصد سالانہ اضافہ، سندھ میں پانچ اور پنجاب میں آٹھ فیصد اضافے کی مشروط اجازت دی ہے، جس کو تینوں صوبوں میں مجاز اتھارٹی کی وساطت سے نافذ کرنا ہے۔ تینوں عدالتوں نے صوبوں میں مجاز اتھارٹی کے قیام یا پھر مجاز اتھارٹی کی جانب سے فیسوں کے شیڈول اور اضافے کے نوٹیفکیشن تک والدین کو اجازت دی ہے کہ وہ اس وقت تک فیسیں نہ جمع کرائیں، جب تک حکومت نجی اسکولوں کو کسی مجاز اتھارٹی کی نگرانی میں نہیں دے دیتی اور فیسوں کا تعین نہیں کر دیا جاتا۔ اسی طرح تینوں صوبوں میں مجاز اتھارٹی کو حکم دیا گیا ہے کہ جن اسکولوں نے فیسوں میں ناجائز اضافہ کیا ہے اور جن کی فیسیں حد سے زیادہ ہیں، ان سے فیسیں واپس لے کر والدین کو دی جائیں۔ تاہم تینوںصوبوں کی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف پرائیویٹ اسکولوں نے الگ الگ تین اپیلیں دائر کردی تھیں۔ سپریم کورٹ نے تینوں اپیلوں کو اکٹھا کرکے لارجر بینچ قائم کیا ہے، جس کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان خود کر رہے ہیں، اور دو سماعتیں ہو چکی ہیں۔ پیٹیشن دائر کرنے والے والدین کے مطابق سپریم کورٹ نے تینوں ہائی کورٹس کے فیصلے کے خلاف اپیل تو سماعت کیلئے منظور کرلی تھی، لیکن فیسوں میں من مانے اضافے اور والدین کو فیسیں جمع نہ کرانے کے حکم کے خلاف حکم امتناعی جاری نہیں کیا تھا۔
کراچی، لاہور، حیدرآباد، پشاور، فیصل آباد، سرگودھا اور دیگر شہروں سے پٹیشن دائر کرنے والے والدین نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ عدالتی احکامات کے تحت وہ اپنے بچوں کی فیسیں جمع نہیں کروا رہے ہیں، جس پر ان کے بچوں کو اسکولوں کی انتظامیہ کی جانب سے ہراساں کیا جارہا ہے۔ طلبا و طالبات کو ہراساں کرنے کے زیادہ واقعات بیکن ہائوس، سٹی پبلک اسکول، دی سٹی اسکول، سینٹ گرگیری، جنریشن اسکول، فائونڈیشن پبلک اسکول، ہیڈ اسٹار اور دیگر اسکولوں کی کراچی، لاہور اور پشاور سمیت دیگر شہروں کی برانچوں میں ہو رہے ہیں۔ بیکن ہائوس اسکول لاہور کی ایک برانچ کی انتظامیہ نے امبر چوہدری ایڈووکیٹ کو صبح دس بجے فون کیا کہ فیس ادا نہ کرنے پر وہ اپنے بچے کو اسکول سے واپس لے جائیں۔ امبر چوہدری نے اسکول انتظامیہ کو بتایا کہ وہ اپنے دفتر کام میں مصروف ہیں اور ابھی نہیں آسکتیں۔ تو ان کو کہا گیا کہ پھر آپ کے بیٹے کو لائبریری میں بٹھا دیا جائے گا۔ جس پر امبر چوہدری ایڈووکیٹ بھاگم بھاگ اسکول پہنچیں اور انتظامیہ کو بتایا کہ عدالتی حکم پر انہوں نے فیس ادا نہیں کی ہے۔ اگر اسکول انتظامیہ پھر بھی فیس لینا چاہتی ہے تو ان کو باقاعدہ فیس کارڈ، چالان اور فیس کی رسید ادا کی جائے۔ تاہم اسکول انتظامیہ نے مذکورہ دستاویزات دینے سے انکار کردیا۔ جس کے بعد امبر چوہدری ایڈووکیٹ اور دیگر والدین نے محکمہ تعلیم لاہور کے دفتر جاکر احتجاج کیا تو سرکاری حکام کی مداخلت پر ان کے بیٹے کو کلاس میں بیٹھے کی اجازت دی گئی۔ امبر چوہدری ایڈووکیٹ نے واقعہ سے متعلق ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے بیٹے کو امتحان دیتے ہوئے اٹھایا گیا تھا۔ جب وہ اسکول پہنچیں تو ان کے احتجاج پر اس کا پرچہ لایا گیا، جو مکمل نہیں تھا۔ پھر اس کو دوبارہ پرچہ دیا گیا کہ وہ اس کو مکمل کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم لوگ قانونی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہمارا معاملہ اب سپریم کورٹ میں ہے۔ لیکن اسکولوں کی انتظامیہ کی جانب سے پٹیشن دائر کرنے والوں کے بچوں کو ہراساں اور خوف زدہ کیا جارہا ہے۔ بیکن ہائوس اسکول میں میری موجودگی کے دوران ایک کلاس کے چار بچے پرنسپل کے دفتر میں آئے اور کہا کہ انہیں ٹیچر نے کہا ہے کہ آپ کلاس میں نہیں بیٹھیں، لائبریری میں چلے جائیں، کیونکہ آپ کی فیسیں جمع نہیں ہوئی ہیں‘‘۔ امبر چوہدری کے مطابق بچوں نے پرنسپل سے کہا کہ ہمارے والدین اور اسکول کے درمیان طے ہوچکا ہے کہ اگر اسکول انتظامیہ والدین کو فیس کارڈ، چالان اور رسید دے گی تو وہ فیس ادا کر دیں گے۔ مگر اسکول انتظامیہ خود ہی چالان، فیس کارڈ اور رسید دینے سے انکاری ہے، جس پر فیس ادا نہیں کی جارہی۔ امبر چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ ایک اسکول کا قصہ ہے۔ دیگر اسکولوں میں بھی اسی طرح بچوں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں کے ان حربوں کے باوجود والدین اپنے اصولی موقف پر کھڑے ہیں، کیونکہ آئین میں یہ واضح ہے کہ تعلیم کو کاروبار نہیں بنایا جاسکتا اور تعلیمی اداروں کی فیسیں کاروبار کے تحت نہیں ہو سکتیں۔
’’امت‘‘ کو کراچی سے بھی کئی والدین نے بتایا کہ ان کے بچوں کو اسکولوں میں ہراساں کیا گیا ہے۔ جبکہ والدین کو دھمکیاں دی گئیں کہ آپ کے بچوں کو بورڈ اور کیمبرج کے امتحانات میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، جس سے ان کا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔ ’’امت‘‘ کو پشاور اور دیگر شہروں سے بھی اس طرح کی شکایات ملی ہیں۔
کراچی میں آل سندھ پیرنٹس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری حمودالرحمن نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیسوں کے حوالے سے والدین کی قانونی جنگ آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے۔ اب تینوں صوبوں کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور سپریم کورٹ نے لارجر بینچ بھی تشکیل دے دیا ہے۔ جو بھی فیصلہ آئے گا وہ قانون بن جائے گا اور اس کی پابندی ہر صورت کرنا ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ ’’اس قانونی جنگ کی وجہ سے ہمارے بچوں کو اسکولوں کی انتظامیہ کے متعصبانہ رویے کا سامنا ہے۔ کئی اسکولوں میں بچوں کو کلاسوں سے نکالا گیا اور امتحان میں نہیں بیٹھنے دیا گیا۔ آئندہ سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ میں اسکولوں کے اس رویے کے خلاف بھی درخواست دائر کی جائے گی‘‘۔
لاہور میں والدین کی ایکشن کمیٹی کی کور ممبر فائقہ سلیم نے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں بتایا کہ ’’بچوں کو ہراساں کرنے کے واقعات معمول بن چکے ہیں، جس پر ہم اسکولوں کی انتظامیہ اور محکمہ تعلیم سے بھی احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ سلسلہ بند نہیں ہوا۔ اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں ایک اور پٹیشن دائر کریں گے، جس میں عدالت سے درخواست کی جائے گی کہ اسکولوں کی انتظامیہ کو بچوں کو ہراساں کرنے سے روکا جائے۔ اگر اسکول عدالتی حکم کے برعکس فیس وصول کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس کیلئے بھی تیار ہیں۔ لیکن ہمیں اسکول کا فیس کارڈ، چالان اور رسید دینا ہوگی۔ محکمہ تعلیم کو چاہئے کہ وہ عدالتی حکم پر مکمل عملدرآمد کرائے‘‘۔
’’امت‘‘ نے پٹیشنرز کے بچوں سے متعصبانہ سلوک اور انہیں ہراساں کئے جانے کی شکایات کے حوالے سے پرائیویٹ اسکولوں کا موقف جاننے کیلئے رابطہ کیا، لیکن کسی بھی اسکول کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا۔ بیکن ہائوس لاہور کے میڈیا سے منسلک آفیشل خرم، سٹی پبلک اسکول کے تنویر، دی سٹی اسکول کے میڈیا سیل اور دیگر نے کہا کہ وہ تھوڑی دیر بعد رابطہ کرکے موقف دیں گے۔ لیکن انہوں نے دوبارہ فون نہیں کیا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment