شہباز شریف مشکل وقت میں چوہدری نثار کی مدد کے خواہاں

امت رپورٹ
نواز لیگ کے صدر شہباز شریف، سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے رابطے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے شہباز شریف دیرینہ ساتھی کے ذریعے مقتدر حلقوں سے تعلقات بہتر کرکے مقدمات سے گلو خلاصی چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ چوہدری نثار خاموشی سے پاکستان واپس آگئے ہیں۔ وہ پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 10 سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے، لیکن انہوں نے اب تک اپنی رکنیت کا حلف نہیں اٹھایا ہے۔ ان کے قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ چوہدری نثار جلد اس نشست سے دستبرداری کا اعلان کر دیں گے۔ کیونکہ ان سے نہ تو مسلم لیگ ’’ن‘‘ نے رابطہ کیا ہے اور نہ ہی تحریک انصاف اب انہیں اہمیت دے رہی ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق بدھ کے روز جب قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو قومی اسمبلی میں لایا گیا تو انہوں نے قائد حزب اختلاف کے کمرے میں صحافیوں سے ملاقات کی۔ اس موقع پر شہباز شریف نے ایک بزرگ صحافی سے، جو چوہدری نثار علی خان کے ذاتی دوست بھی ہیں، پوچھا کہ چوہدری صاحب کیا لندن سے واپس آگئے ہیں؟ جواب اثبات میں ملنے پر شہباز شریف نے کہا کہ آپ کی ان سے ملاقات ہو تو پوچھیے گا کہ میں نے ان کے آپریشن کے بعد جو گلدستہ بھیجا تھا کیا وہ انہیں مل گیا تھا؟ واضح رہے کہ لندن میں چوہدری نثار کے گردوں کا آپریشن کر کے پتھریوں کو نکال دیا گیا ہے۔ شہباز شریف کی جانب سے چوہدری نثار کی خیریت پوچھنے پر سینئر صحافیوں نے تجزیہ کیا ہے کہ نواز شریف کے نئے بیانیے کے برعکس سابق وزیر اعلیٰ پنجاب مقتدر حلقوں کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کا اظہار انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں بھی کیا۔ اس پس منظر میں سینئر سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شہباز شریف اپنی رہائی کیلئے ایک بار پھر مقتدر حلقوں سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں اور ان کے خیال میں ان کے دوست سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ہی اس رابطے کیلئے موزوں ہیں۔ دوسری جانب چوہدری نثار کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اب وہ نہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کیلئے کوئی کام کریں گے اور نہ ہی تحریک انصاف میں جائیں گے۔ کیونکہ جو شکایات انہیں نواز لیگ سے ہیں، تحریک انصاف میں انہیں اس سے زیادہ شکایات ہوںگی۔ وہاں ان کا ٹکرائو ان سے کہیں زیادہ بڑی شخصیات سے ہوگا۔ ذرائع کے بقول اگرچہ چوہدری نثار علی خان نے لندن میں بیگم کلثوم نواز کے جنازے میں شرکت کی تھی، لیکن وہ نواز شریف اور پرویز رشید کے لگائے گئے زخموں کو بھولے نہیں ہیں۔ انہوں نے لندن سے واپس آنے کے بعد نواز لیگ کے کسی رہنما سے ملاقات نہیں کی ہے اور نہ ہی اپنے کسی صحافی دوست کو کھانے پر بلایا ہے۔ چوہدری نثار کا گنتی کے چند صحافیوں کے ساتھ ہی براہ راست رابطہ ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ چوہدری نثار اب کسی طور نواز لیگ میں نہیں جائیں گے۔ کیونکہ الیکشن میں انہیں راولپنڈی سے شکست نون لیگ کی وجہ سے ہی ہوئی، جس نے نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے، کی پالیسی اپنائی تھی۔ چوہدری نثار کے ایک قریبی ساتھی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی اعلی قیادت کی غلط ’’حکمت عملی‘‘ کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ چوہدری نثار نے اپنے حلقہ ہائے انتخاب میں پچھلے چند برسوں میں 35 ارب روپے سے زائدکے ترقیاتی منصوبے دیئے تھے، جس کی وجہ سے ان کی پوزیشن مضبوط تصور کی جاتی تھی۔ لیکن قومی اسمبلی کے حلقوں میں ان کی شکست پر حیرت کا اظہار کیا گیا۔ چوہدری نثار علی خان کو ’’جیپ‘‘ کا نشان ملنے پر ان کا شمار مخصوص گروپ میں کیا جانے لگا، لیکن انتخابی نتائج نے اس بات کی نفی کر دی تھی۔ ذرائع کے بقول اگر ان کا تعلق کسی خاص گروپ سے ہوتا تو ان کی کامیابی میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوتی۔ یاد رہے کہ چوہدری نثار کو این اے 59 سے 66 ہزار 369 ووٹ ملے تھے۔ جبکہ ان کے مد مقابل غلام سرور خان نے 89 ہزار 55 ووٹ حاصل کئے۔ جبکہ نواز لیگ کے امیدوار انجینئر قمرالاسلام صرف 21 ہزار 754 ووٹ حاصل کر سکے۔ ایک معتبر ادارے کی سروے رپورٹ میں اس حلقے میں چوہدری نثار علی خان کو اپنے مد مقابل پر سبقت حاصل تھی۔ لیکن انتخابی نتائج نے اس کی نفی کر دی۔ چوہدری نثار علی خان این اے63 سے بھی کھڑے ہوئے تھے، جہاں انہوں نے 60 ہزار 747 حاصل کئے اور تحریک انصاف کے امیدوار کو ایک لاکھ 886 ووٹ ملے۔ جبکہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے سردار ممتاز خان صرف 22 ہزار 966 ووٹ حاصل کر سکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار علی خان نے نواز لیگ کے ٹکٹ کیلئے لیگی قیادت کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ لیکن نواز لیگ کی قیادت نے چوہدری نثار علی خان کا راستہ روکنے کیلئے دو نشستوں سے ہاتھ دھو کر اپنی’’انا‘‘ کی تسکین کرلی۔ اس طرح چوہدری نثار اور شریف خاندان کی 34 سالہ دوستی انا اور سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی۔ ذرائع کے بقول مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے رہنمائوں کو جرأت نہیں کہ وہ میاں نواز شریف کے سامنے چوہدری نثار علی خان سے صلح کی بات کریں۔ تاہم الیکشن سے قبل میاں شہباز شریف، خواجہ سعد رفیق، سردار ایاز صادق، شاہد خاقان عباسی اور رانا تنویر سمیت کچھ رہنمائوں نے مفاہمت کرانے کی کوشش کی تھی، لیکن انہوں نے نواز شریف کے سخت طرز عمل کے سامنے خاموشی اختیار کرلی تھی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment