امت رپورٹ
سانحہ ماڈل ٹائون میں ملوث 120 پولیس افسروں اور اہلکاروں کو معطل کر کے عہدوں سے ہٹائے جانے کے بعد اب اس سلسلے میں اعلیٰ بیوروکریٹس کے خلاف کارروائی کے لیے بھی حکومت پر زبردست دبائو ہے۔ معتبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ماڈل ٹائون واقعہ میں ملوث پولیس افسروں کو فیلڈ ڈیوٹی سے نہ ہٹائے جانے پر تحریک منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہرالقادری نے وزیر اعظم عمران خان سے براہ راست فون پر ہونے والی گفتگو میں سخت شکوہ کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق طاہرالقادری کا وزیراعظم سے کہنا تھا کہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر انہوں نے ماڈل ٹائون واقعہ کے متاثرین کو انصاف دلانے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن برسراقتدار آنے کے باوجود تاحال تمام پولیس افسران و اہلکار اپنی پوسٹوں پر موجود ہیں۔ جبکہ مقتولین کے ورثا ان سے سوال کر رہے ہیں کہ اگر اب بھی انہیں انصاف نہیں ملا تو کب ملے گا؟ جس پر وزیراعظم عمران خان نے آئی جی پنجاب محمد طاہر کو حکم دیا کہ سانحہ ماڈل ٹائون میں ملوث پولیس افسران و اہلکاروں کو فوری طور پر فیلڈ پوسٹنگ سے ہٹا دیا جائے۔ تاہم انہوں نے انکار کر دیا۔ ذرائع کے مطابق آئی جی محمد طاہر خان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے، لہٰذا وہ اس سلسلے میں اپنے طور پر کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے۔ لیکن اگر وزیراعظم پھر بھی یہ ضروری سمجھتے ہیں تو وہ باقاعدہ لکھ کر حکم جاری کریں۔ بعدازاں اس معاملے پر جو بدمزگی ہوئی اور جس طرح آئی جی پنجاب کو عہدے سے فارغ ہونا پڑا، یہ سب رپورٹ ہو چکا ہے۔
آئی جی پنجاب محمد طاہر کی جگہ پنجاب پولیس کے نئے سربراہ امجد سلیمی نے وزیراعظم کی خواہشات کے مطابق 116 پولیس افسران و اہلکاروں کو معطل کر کے عہدوں سے فارغ کر دیا۔ جبکہ 4 ایس پیز کو پہلے ہی پوسٹنگ سے ہٹا دیا گیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ طاہرالقادری کی طرف سے وزیراعظم سے کی جانے والی ڈیمانڈ کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا ہے۔ دوسرے مرحلے میں سینئر بیوروکریٹس کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق معاشی بحران اور دیگر مسائل میں گھری پی ٹی آئی حکومت، جسے پہلے ہی بیوروکریسی کی طرف سے عدم تعاون کا مسئلہ درپیش ہے، نہیں چاہتی تھی کہ ماڈل ٹائون واقعہ سے جڑے سینئر بیوروکریٹس کے خلاف فوری کارروائی کر کے معاملات کو مزید سنگین بنا دے۔ لیکن اس سلسلے میں دبائو اس قدر ہے کہ اس کے پاس بچنے کا کوئی راستہ نہیں۔ حکومت کو یہ تشویش بھی لاحق ہے کہ اگر اس معاملے میں مزید تاخیر کی گئی تو دوسری جانب سے احتجاج کا سامنا کرنا نہ پڑ جائے۔ ذرائع کے مطابق یہی وجہ ہے کہ ماڈل ٹائون واقعہ میں ملوث پولیس افسروں کو پوسٹوں سے ہٹائے جانے کے بعد اب سینئر بیورو کریٹس کے خلاف بھی اسی نوعیت کے اقدام پر غور کیا جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق جن اعلیٰ بیوروکریٹس کو تحریک منہاج القرآن پوسٹوں پر نہیں دیکھنا چاہتی، ان میں سید توقیر شاہ، میجر (ر) اعظم سلیمان، راشد محمود لنگڑیال، کیپٹن (ر) محمد عثمان یونس، طارق منظور چانڈیو اور علی عباس شامل ہیں۔ 2014ء میں ماڈل ٹائون واقعہ کے وقت سید توقیر علی شاہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے پرسنل سیکریٹری تھے۔ ماڈل ٹائون واقعہ کے فوری بعد توقیر شاہ کو وزیراعلیٰ کے پرسنل سیکریٹری کے عہدے سے تو ہٹا دیا گیا تھا، تاہم انہیں تین برس کے لیے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں مستقل مندوب مقرر کر دیا گیا۔ اسی طرح ماڈل ٹائون واقعہ کے وقت ہوم سیکریٹری پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان کو پہلے صوبہ سندھ میں چیف سیکریٹری بنا کر بھیجا گیا اور اب وہ وفاق میں سیکریٹری داخلہ کے عہدے پر کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح سانحہ ماڈل ٹائون کے موقع پر کیپٹن (ر) محمد عثمان یونس ڈی سی او لاہور تھے۔ اب پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈی جی کے طور پر کام کررہے ہیں۔ جبکہ ماڈل ٹائون واقعہ کے وقت راشد محمود لنگڑیال کمشنر لاہور، طارق منظور چانڈیو اے سی ماڈل ٹائون اور علی عباس ٹی ایم او نشتر ٹائون لاہور تھے۔ ذرائع کے مطابق تحریک منہاج القرآن کی قیادت کا شکوہ تھا کہ نون لیگ کی حکومت نے تو ان بیوروکریٹس کو مختلف پوسٹوں پر برقرار رکھا، جبکہ پی ٹی آئی حکومت نے بھی اس سلسلے کو جاری رکھا ہوا ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ماڈل ٹائون واقعہ کی تحقیقات کے لیے تیسری جے آئی ٹی بنانے کے حوالے سے بھی پنجاب حکومت پر شدید دبائو ہے۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت سے دریافت کیا ہے کہ کیا ایک بار جے آئی ٹی بننے کے بعد دوبارہ جے آئی ٹی بنائی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اس کا جواب اب پنجاب حکومت نے اگلی سماعت پر دینا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے ایک عہدیدار کے مطابق سپریم کورٹ اگر دوبارہ جے آئی ٹی بنانے کے احکامات نہ بھی دے تو پنجاب حکومت اپنے طور پر یہ کام کر سکتی ہے۔ کنٹینر پر کھڑے ہو کے دو کزنوں (عمران خان اور طاہرالقادری) نے ماڈل ٹائون واقعہ کے متاثرین کو انصاف دلانے کی بات کی تھی۔ ان میں سے ایک کزن اب برسراقتدار ہے، لہٰذا بال اب اس کے کورٹ میں ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ تحریک منہاج القرآن کے سربراہ طاہرالقادری آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے نمائندوں پر مشتمل نئی جے آئی ٹی بنانے کے خواہش مند ہیں۔ وہ اس جے آئی ٹی میں کسی ایسے افسر کی شمولیت نہیں چاہتے، جس کا نون لیگ کی سابق حکومت سے تعلق رہا ہو۔ اب تک ماڈل ٹائون واقعہ کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن اور دو جے آئی ٹی بنائی جا چکی ہیں۔ اگر نئی جے آئی ٹی بنتی ہے تو یہ تیسری تحقیقاتی ٹیم ہو گی۔ اس کیس میں اب تک 56 گواہیاں ہو چکی ہیں۔ ماڈل ٹائون کے واقعہ میں کل 14 لاشیں گری تھیں۔ ذرائع کے مطابق ان میں 10 کا تعلق تحریک منہاج القرآن سے تھا۔ 4 راہ گیر تھے۔ ان میں سے ایک کرسچن تھا۔ ان چاروں کے خاندان نے کیس نہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ لہٰذا 10 مقتولین کے قتل کی ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی۔
ادھر نون لیگ کے ذرائع کے مطابق سابق حکومت نے مقتولین کے ورثا سے پس پردہ رابطہ کر کے یہ معاملہ عدالت کے باہر سیٹل کرنے کی متعدد کوششیں کی، جو کامیاب نہ ہو سکیں۔ اس سلسلے میں رانا مشہود اور رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف کو بھی ٹاسک سونپا گیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ جس وقت انسداد دہشت گردی میں گواہیوں کا عمل جاری تھا تو اس دوران شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے ایک نون لیگی ایم پی اے اپنے حلقے میں موجود ایک متاثرہ فیملی کے پاس ڈیڑھ کروڑ روپے لے کر پہنچے تھے۔ لیکن انہیں ناکامی کا سامنا رہا۔ اسی طرح لاہور اور چند دیگر علاقوں میں مقیم مقتولین کی دیگر فیملیوں کو بھی مکان اور بیرون ملک نوکریوں کی پیشکش کی گئی۔ ذرائع کے مطابق بیشتر مقتولین کا تعلق کچے گھروں سے تھا۔ لیکن انہوں نے پرکشش آفرز ٹھکرا دیں۔ حتیٰ کہ سابق پنجاب حکومت کی جانب سے اعلان کر دہ فی کس 30 لاکھ روپے بھی وصول نہیں کئے اور کروڑوں کی یہ رقم بینک اکائونٹس میں پڑی lapse ہو گئی۔ ذرائع کے بقول یہ ورثا کسی طرح کمپرومائز پر تیار نہیں۔ لہٰذا ان کا اپنی قیادت پر بھی شدید دبائو ہے کہ وہ اپنے کنٹینر کے اتحادی عمران خان کے ذریعے جو، اب اقتدار میں آچکے ہیں انصاف کے حصول کا وعدہ پورا کرائیں۔ ذرائع کے مطابق اگر یہ معاملہ پی ٹی آئی حکومت کی مصلحت اندیشی کی نظر ہوا تو ورثا کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آسکتا ہے۔
اس سلسلے میں جب تحریک منہاج القرآن کے سیکریٹری انفارمیشن نوراللہ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’علامہ طاہرالقادری کو وزیراعظم عمران خان نے خود فون کیا تھا۔ اس موقع پر طاہرالقادری کا کہنا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹائون کے ملزمان اپنے عہدوں کے ساتھ سرکاری پروٹوکول میں گھوم رہے ہیں اور اپنی سرکاری حیثیت کی وجہ سے کیس پر بھی اثرانداز ہو رہے ہیں۔ لہٰذا انہیں پرکشش پوسٹوں سے ہٹایا جائے‘‘۔ نوراللہ کے بقول ماڈل ٹائون واقعہ میں ملوث پولیس افسروں کو فیلڈ ڈیوٹی سے ہٹانے کا فیصلہ شہباز حکومت نے کیا تھا، لیکن اس پر عمل اب ہوا ہے۔ سیکریٹری انفارمیشن نے تصدیق کی کہ نئی حکومت کے آجانے کے بعد بھی ان افسروں کو ہٹائے جانے میں تاخیر پر نہ صرف تحریک منہاج القرآن کی قیادت میں تشویش پائی جارہی تھی، بلکہ ورثا میں بھی بے چینی تھی۔ تاہم دیر آید درست آید کے مصداق بالآخر ان افسروں کو پوسٹوں سے ہٹا دیا گیا۔ ٭
٭٭٭٭٭