آخرت کیلئے کچھ آگے بھیجئے
ایک بار حضرت عمر بن عبد العزیزؒ، خلیفہ سلیمان بن عبد المالک کے ساتھ کسی سفر کے لئے نکلے۔ حضرت عمرؒ نے اپنا سامان اور خیمہ وغیرہ پہلے سے آگے نہیں بھجوایا تھا۔ منزل پر پہنچے تو ہر شخص اپنے خیمے میں جو اس نے پہلے سے بھجوا رکھا تھا، چلا گیا اور خلیفہ سلیمان کے لئے جو خیمہ نصب کیا گیا تھا، وہ اس میں فروکش ہوا۔
حضرت عمرؒ کہیں نظر نہ آئے تو سلیمان نے کہا: انہیں تلاش کرو۔ غالباً انہوں نے کوئی خیمہ نہیں بھیجا تھا۔ انہیں تلاش کیا گیا تو دیکھا کہ ایک درخت کے نیچے بیٹھے رو رہے ہیں۔ سلیمان کو اطلاع کی گئی۔ آپ کو بلایا اور دریافت کیا: ابو حفص! کیوں رو رہے تھے؟
فرمایا: امیر المؤمنین رونے کا سبب یہ ہوا کہ مجھے قیامت کا دن یاد آگیا۔ دیکھئے، میں نے گھر سے کوئی چیز نہیں بھیجی تھی۔ مجھے یہاں کچھ نہیں ملا۔ اسی طرح قیامت میں بھی جس نے جو چیز آگے بھیجی ہوگی، وہی اسے ملے گی اور جس نے کوئی چیز نہ بھیجی ہوگی، وہ پریشان ہو گا۔
جب حجاج بن یوسف کی موت کی خبر آئی تو لوگ ولید بن عبد الملک کے پاس تعزیت کے لیے گئے۔ مگر حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نہیں گئے۔ ولید کو اس کا رنج ہوا۔ اس نے حضرت عمرؒ سے کہا ’’عمر! حجاج کی موت پر جس طرح دوسرے لوگوں نے میری تعزیت کی، تم نے کیوں نہیں کی؟‘‘
جواب دیا امیر المومنین! حجاج ہمارے گھرانے کا ایک فرد تھا۔ اس کی موت پر ہم خود تعزیت کے مستحق ہیں۔ نہ یہ کہ ہم تعزیت کریں۔ ولید بولا آپ ٹھیک کہتے ہیں۔(بے مثال واقعات)
٭٭٭٭٭