صبر کا بہترین صلہ ملا

’’صباح‘‘ کویت کا بہت بڑا خاندان ہے۔ اس خاندان کے امیر شیخ جابر احمد الصباح اور ولی عہد شیخ سعدالصباح سے کویت کی سلطنت چھین لی گئی اور 225 دنوں کے بعد واپس مل گئی۔ یہ واقعہ اگست کی دوسری تاریخ 1990ء کو بروز جمعرات پیش آیا تھا جو اہل کویت کے لئے ایک منحوس و نا مبارک دن تھا۔
شیخ جابر احمد الصباح خوف زدہ حالت میں اپنے شہر کو چھوڑ کر فرار ہوگیا، وہ عزت و جاہ کے چھن جانے کے بعد کی اپنی اس موجودہ حالت کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ جلا وطنی کی حالت میں سعودیہ کے شہر طائف میں تقریباً سات مہینے تک رہا، یہاں تک کہ کویت ملکی معاہدے کے تحت مکمل طور پر آزاد ہوگیا اور ساری دنیا کے لوگ اس بات پر انتہائی خوش ہوئے کہ کویت اس کے باشندوں کو واپس مل گیا، کیوں کہ مظلوم کی مدد کرنا واجب ہے اور وطن سے محبت کرنا ایمان کی علامت ہے۔
پہلے کویت کی ولی عہد شیخ سعد الصباح لوٹے، پھر ایئر پورٹ پہنچ کر انہوں نے اپنے آباء واجداد کے وطن واپس لوٹ آنے پر شکرانے کے دو رکعت نفل ادا کیں۔ کویت کے باشندے بھی اس سے بہت خوش تھے۔
اس کے بعد کویت کے امیر مملکت شیخ جابر احمد الصباح بھی لوٹ آئے اور اپنی سلطنت بحال ہوجانے اور وطن سے دوری اور رنج ومشقت برداشت کرنے کے بعد اپنے وطن واپسی پر رب تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوئے اور ان کی حالت یہ کہہ رہی تھی۔
صبر کرو! کیوں کہ صبر کا صلہ بہت بہتر ہے اور کسی بھی آنے والی پریشانی پر دلبرداشتہ مت ہو۔ بے شک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے اور تنگی کے بعد غم کے بادل ہٹ جاتے ہیں اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو مشکلات پر فوراً آہ و پکار شروع کردیتے ہیں، حالاں کہ ان سے بالکل ملی ہوئی فراخی چلی آرہی ہوتی ہے۔
پریشانی کے بعد راحت کے بارے میں بہت سارے اشعار ہیں۔ کون ایسا شخص ہے جس کو کبھی غموں سے واسطہ ہی نہ پڑا ہو، کون ہے جس کو زمانے کی مصیبتوں نے چھوا ہی نہ ہو؟
حضرت جعفر صادقؒ یا بعض کے نزدیک حضرت حسین بن علیؓ نے فرمایا:
’’اگر ایک دن کی پریشانی آجائے تو جزع فزع نہ کرو، کیوں کہ تم نے ایک عرصے تک خوشحالی بھی تو دیکھی ہے اور اپنے رب پر برا گمان مت کرو، کیوں کہ رب تعالیٰ خوبصورتی کے سب سے زیادہ مستحق ہیں اور دل چھوٹا مت کرو کیوں کہ مایوسی کفر ہے شاید کہ رب تعالیٰ تھوڑے میں کفایت کردیں۔ بے شک ہر مشکل کے بعد آسانی آتی ہے اور رب تعالیٰ کی بات ہر بات سے سچی ہے اور اگر عقلیں رزق کو کھینچنے والی ہوتیں تو مال صرف عقل مندوں کے پاس ہوتا۔‘‘
ایک زاہد عابد کہتے ہیں:
’’ممکن ہے کہ رب تعالیٰ فراخی لے آئیں، کیوں کہ وہ ہر روز اپنے بندوں کے بارے میں فیصلے کرتے رہتے ہیں۔ جب مشکل بڑھتی ہے تو آسانی کو کھینچتی ہے، کیوں کہ حق تعالیٰ کی طرف سے طے پاچکا ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔
احمد بن عبد الرحمن فرماتے ہیں:
’’ناپسندیدہ امور کا انجام عموماً خوش آئندہ ہوتا ہے اور مصائب کے دن ہمیشہ تھوڑے ہوتے ہیں اور دن اور رات کتنے ہی پلٹ پلٹ کر کیوں نہ آئے، لیکن ان ایام کی راحتیں اور کدورتیں باقی نہیں رہتیں۔‘‘
اور لقیط بن زرارہ تمیمی فرماتے ہیں:
’’میں مختلف قسم کے لوگوں میں رہا اور نرمی اور سختی دونوں کو برداشت کیا۔ میں نے ہر طرح کے حالات دیکھے، مگر کسی آسودگی نے مجھے ناشکرا نہیں بنایا۔ میں کسی بھی پریشانی پر قبل از وقت شکایت نہیں کرتا اور اگر پریشانی آ بھی جائے تو اس سے دل نہیں چھوڑ بیٹھتا۔ میرے لئے کسی کامیابی کی راہیں بند نہیں کی گئیں، جس کے راستے پر بیچ ہوں، مگر یہ کہ میں نے اپنے لئے اس تنگی کے پیچھے بھی کھلی راہیں پائیں۔
امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالبؓ فرماتے ہیں:
’’جب مجھ پر تنگی آتی ہے تو اپنے آپ سے کہتا ہوں اس حالت میں کہ زمانہ حیرت انگیز طور پر مجھ پر حاوی ہوچکا ہوتا ہے کہ روز و شب کی سختیوں پر صبر کرو، کیوں کہ نیک انجامی اسی میں ہے اور صبر خاندانی لوگوں کا ہی شیوہ ہے اور جلد ہی حق تعالیٰ نفع کی کوئی ایسی صورت نکالیں گے، جس میں تمہارے لئے مشقتوں سے نجات ہوگی۔‘‘(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment