معارف القرآن

معارف و مسائل
ذُو الْجَلٰلِ… یعنی وہ رب صاحب عظمت و جلال بھی ہے اور صاحب اکرام بھی۔ صاحب اکرام ہونے کا یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ در حقیقت ہر اکرام و اعزاز کا مستحق تنہا وہی ہے اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ خود صاحب عظمت و جلال ہونے کے باوجود عام دنیا کے بادشاہوں اور عظمت والوں کی طرح نہیں کہ ان کو دوسروں کی اور غریبوں کی طرف التفات و توجہ نہ ہو، بلکہ وہ عظمت و جلال کے ساتھ اپنی مخلوقات کا بھی اکرام کرتا ہے، کہ ان کو عطاء وجود کے بعد طرح طرح کی بے شمار نعمتوں سے نوازتا ہے اور ان کی درخواستیں اور دعائیں سنتا ہے، اگلی آیت اسی دوسرے معنی کی شہادت دیتی ہے اور یہ لفظ ذو الْجَلٰلِ وَالاِکرَامِ حق تعالیٰ کی ان خاص صفات میں سے ہے کہ ان کو ذکر کر
کے انسان جو دعا مانگتا ہے قبول ہوتی ہے۔ ترمذی، نسائی اور مسند احمد میں ربیعہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ رسول اقدسؐ نے فرمایا: الظوا بیا ذا الجلال والاکرام، الظوا، الظاظ سے مشتق ہے، جس کے معنی لازم پکڑنے کے ہیں، مراد حدیث کی یہ ہے کہ اپنی دعاؤں میں یا ذا الجلال والاکرام کو یاد رکھو اور اس کے ساتھ دعا کیا کرو، کیونکہ وہ اقرب الی القبول ہے۔ (مظہری)
یَسْئَلُہٗ… ’’یعنی زمین و آسمان کی ساری مخلوقات حق تعالیٰ کی محتاج ہیں اور اسی سے اپنی حاجات مانگتی ہیں۔‘‘ زمین والے اپنے مناسب حاجات رزق اور صحت و عافیت اور آرام و راحت پھر آخرت کی مغفرت و راحت اور جنت مانگتے ہیں، آسمان والے اگرچہ کھاتے پیتے نہیں، مگر رب تعالیٰ کی رحمت و عنایت کے ہر وقت محتاج ہیں، وہ بھی رحمت و مغفرت وغیرہ اپنی حاجات کے طلب گار رہتے ہیں، آگے ’’لیوم‘‘ اسی ’’یسئل‘‘ کا ظرف ہے، یعنی ان کے سوالات اور درخواستیں حق تعالیٰ سے ہر روز رہتی ہیں اور یوم اور روز سے مراد بھی عرفی دن نہیں، بلکہ مطلقاً وقت مراد ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ ساری مخلوقات مختلف خطوں، مختلف زبانوں میں اس سے اپنی اپنی حاجات ہر وقت مانگتی رہتی ہیں ۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment