میں اپنے دوست ٹیکسی ڈرائیور علی قلی حبّی کے ساتھ واپس راور تقریباً سات بجے شام پہنچ گیا۔ مسٹر حبی کو ان کی رقم کی ادائیگی کے بعد خدا حافظ کہا اور پھر راور کی جامع مسجد میں جا پہنچا، جہاں مغرب اور عشا کی نمازیں ملا کر اکیلے ہی پڑھیں کہ مسجد میں مغربین (مغرب اور عشا کی نمازیں ایک ساتھ) کی جماعت چند منٹ پیشتر اختتام پذیر ہو گئی تھی۔ نمازیں پڑھ کر مسجد سے باہر نکلا تو بھوک ستانے لگی کہ دن کافی لمبا ہو گیا تھا۔ دوپہر کو راور چھوڑتے وقت ہلکا پھلکا کھانا ہی کھایا تھا، جو فیلڈ ورک میں کبھی کا ہضم ہو چکا تھا۔ راور کے بازاروں میں کافی دیر آوارہ گردی کی، مگر ایسی تمام دکانیں بند ہو چکی تھیں جہاں سے مجھے کچھ کھانے کو مل سکتا۔ ناگاہ اپنی مادر درسگاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مشہور شاعر مجاز لکھنوی کی نظم ’آوارہ‘ کا پہلا بند زبان پر جاری ہو گیا۔
شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تک دربدر مارا پھروں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
(مجاز)
آخرکار دور سے مجھے ایک کھوکا نظر آیا کہ جس میں بجلی کا ایک بلب روشن تھا اور اس میں ایک بزرگ صورت ہستی بطور کھوکادار تشریف فرما تھی۔ میں قریب گیا، ان کی خدمت میں سلام پیش کیا اور اپنا مدعا بیان کیا کہ میں ایک پاکستانی زمین شناس ہوں، کرمان سے ارضیاتی کام کے سلسلے میں راور آیا تھا، کہ رات نے آ پکڑا۔ اب میرا ایک مسئلہ تو بھوک کا ہے اور دوسرا کرمان پہنچنے کا۔ وہ صاحب جو عمر میں مجھ سے کافی چھوٹے تھے مگر صورت اور حلیے سے بڑے لگتے تھے، بڑے یقین سے گویا ہوئے کہ میں آپ کے دونوں مسئلے حل کرنے کی کوشش کروں گا اور اللہ نے چاہا تو دونوں ہی مسئلے حل ہو جائیں گے۔ اس کے بعد اس مرد نیک نے اپنے کھوکے پر بیٹھے ہوئے ایک لڑکے کو ہدایات دے کر ایک ٹیکسی ڈرائیور کے گھر بھیجا کہ اس کو بلا لائے اور پہلے سے بتا دے کہ ایک پاکستانی مہمان کو چھوڑنے کرمان جانا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے کھوکے کے عقبی حصے میں گئے اور کچھ دیر بعد وہاں سے ایک ٹرے میں چند روٹیاں، تلے ہوئے انڈے اور پانی کا ایک گلاس لیے باہر نکلے اور یہ سب نعمتیں میرے سامنے رکھ دیں۔ مجھ بھوکے کو تو سخت بھوک لگی تھی۔ ذرا سی دیر میں سب چٹ کر گیا اور کھانے میں اتنا مزہ آیا کہ شاید اسلام آباد کے کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے کھانے میں بھی وہ لطف نہ آتا۔ ادھر میں نے کھانا ختم کیا، ادھر ٹیکسی ڈرائیور صاحب معہ اپنی ٹیکسی پہنچ گئے۔ ان صاحب کا نام مسٹر علی تھا۔ کھوکے کے مالک صاحب نے جنہیں اللہ تعالیٰ نے میری مشکل کشائی کے لیے آسمانوں سے اتار دیا تھا، ٹیکسی ڈرائیور کو ہدایت کی کہ پاکستانی مہمان سے مناسب پیسے چارج کرنا۔ اس پر مسٹر علی نے مجھے بتایا کہ میں آپ سے اس وقت مہمان پذیر سعدی چھوڑنے کے اسی ہزار (80,000) ریال چارج کروں گا۔ میں نے اس پر فوراً ہی بغیر کسی بحث یا سودا بازی اپنی رضامندی ظاہر کر دی۔ بعدازاں میں نے کھوکے یا مقامی اسنیک بار کے بزرگ مالک کا ایک لذیذ عشائیہ تیار کرنے پر اور میرے لیے ٹیکسی کا بندوبست کرنے پر بہت بہت شکریہ ادا کیا، ان سے رخصت لی، اپنا سامان ٹیکسی میں رکھا اور مسٹر علی کے ساتھ کرمان روانہ ہو گیا۔ مسٹر علی نے مجھے تقریباً رات دس بجے مہمان پذیر سعدی پہنچا دیا اور اس کے ساتھ ہی ایران میں میری ہر قسم کی ارضیاتی مصروفیات اختتام کو پہنچیں۔ راور کا سالٹ ڈوم میرا آخری ہدف تھا۔ سو وہ اللہ تعالیٰ نے بخیر و خوبی پورا کرا دیا۔
دوسرے دن یعنی 13 مارچ 2002ء کو صبح اٹھ کر اور ضروریات سے فارغ ہو کر میں سیدھا کرمان میں اپنی پسندیدہ جگہ یعنی میدان آزادی پہنچا۔ وہاں ناشتہ کیا، اس خوب صورت اور دلنشیں مقام پر اپنے آخری وزٹ کے ناتے ادھر ادھر گھوما، اس مقام سے وابستہ اپنی یادیں تازہ کیں، پھر ایک دکان سے کیمرے کی ایک فلم خریدی اور واپس مہمان پذیر سعدی آگیا۔ مہتمم استقبالیہ مسٹر حسن سے مہمان پذیر کے صندوق امانت میں رکھائے گئے تین عدد بیگ جن میں زیادہ تر معدنیاتی نمونے تھے، جو کرمان کی کوئلے کی کانوں سے ہی جمع کئے گئے تھے حاصل کئے۔ اب جو سب سامان جمع کیا تو یہ مجھے کچھ زیادہ نظر آیا۔ اس لیے اپنے فیلڈ کے جوتے (جوگر)، دو سویٹروں میں سے ایک سویٹر اور اپنی چپل وغیرہ حسن صاحب کے سپرد کیں کہ وہ یہ اشیا کسی ضرورت مند کو دے دیں۔ اس کے باوجود سامان زیادہ نظر آیا۔ علاوہ ازیں میرا ایک اہم مسئلہ کرمان کے کوئلے کا ایک کئی کلو وزنی واحد دانہ تھا، جس کو بہت احتیاط سے پلاسٹک شیٹوں اور گتوں میں پیک کیا گیا تھا تاکہ وہ بکھرنے نہ پائے اور صحیح و سالم اسلام آباد پہنچ جائے۔ اس نمونے کو اور دیگر بہت سے معدنیاتی نمونوں کو سفر کے دوران ایک جگہ سے دوسری جگہ احتیاط کے ساتھ منتقل کرنے کے علاوہ سب سے بڑا مسئلہ ان نمونوں کو ایران کی سرحدی چوکی میر جاوا چیک پوسٹ سے ’خیریت‘ کے ساتھ باہر نکالنا تھا۔ اس لیے کہ کسی بھی ملک سے اس کے معدنیاتی نمونے جن میں قیمتی پتھر اور جوہری پتھر بھی ہو سکتے ہیں، باہر لے جانے کے لیے اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔ یا اگر قیمتی پتھر ہیں تو مجاز دکاندار کی ادائیگی کی رسید چاہئے ہوتی ہے۔ مگر میرے پاس تو ایسی کوئی چیز نہ تھی اور نمونے اتنے بڑے اور اتنے زیادہ کہ کسی طرح بھی چھپائے نہ جا سکتے تھے۔ مگر میں اللہ تعالیٰ کی مدد پر توکل کرتے ہوئے مطمئن ہو گیا اور فیصلہ کیا کہ اب میں مزید کسی چیز کو اپنے سامان سے کم نہ کروں گا۔ پس میں نے مہمان پذیر کے بزرگ و مسکین صفت مہتمم استقبالیہ کا ان کے تعاون کے لیے شکریہ ادا کیا اور بذریعہ ٹیکسی اس مہمان پذیر سے جہاں میں نے اچھا وقت گزارا تھا، رخصت ہو کر سیدھا کرمان کے بس ٹرمینل پر پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر کرمان کی ایک بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی بنام و مسافر بری ایران سیما کرمان، سے زاہدان کا ٹکٹ بعوض چودہ ہزار چار سو ریال خرید لیا۔ بس کو گیارہ بجے چلنا تھا، مگر سوا گیارہ بجے ہم سب مسافروںکو ایک دوسری کمپنی ’ایران خودرو‘ سے روانہ کر دیا گیا۔ اس بس کا عملہ تین افراد پر مشتمل تھا۔ دو عدد ڈرائیور حضرات اور ایک عدد خادم یا اٹینڈنٹ۔ راستے میں ان صاحبان نے مسافروں میں ایک عدد کتابچہ تقسیم کیا جس کا عنوان تھا: ’’حقوق مسافراں در سفر ہائے بین شہری‘‘۔
یہ کتابچہ ایران کے ادارۂ حمل و نقل کی جانب سے تھا، جس کا فارسی نام ہے: ’’سازمان حمل و نقل و پایانہ ہائی کشور‘‘۔
اس کتابچے میں مسافروں کے حقوق بڑی صراحت سے درج تھے اور آخر میں سفر کی قرآنی دعا اور مسافروں کے بخیریت اپنی منزل پر پہنچنے کی نیک خواہشات درج تھیں۔ علاوہ ازیں اس کتابچے میں قدیم ایرانی مہینوں کے نام بھی درج تھے۔ جو کچھ یوں تھے: فراردین، اُردبہشت، فردار، تیر، مرداد، شہرپور، مہر، آباد، آذر، وی، بہمن اور اسفند۔
ایران خودرو کی بس مہان، بم، رستم آباد، فحراج اور نصرت آباد سے گزرتی ہوئی ساڑھے سات بجے شام زاہدان پہنچ گئی۔ یہ اس سے ایک گھنٹہ پہلے بھی پہنچ سکتی تھی اگر راستے میں خراب نہ ہو جاتی اور اس کی مرمت پر تقریباً ایک گھنٹہ نہ صرف ہو گیا ہوتا۔ درمیان میں فحراج پر نماز اور کھانے کا ہالٹ بھی کیا گیا، مگر میں نے یہاں صرف چائے پینے پر ہی اکتفا کیا کہ ایران میں لمبے روٹ والی بسوں کے ظہرانے اور عشایئے کے ہالٹ جن ہوٹلوں میں ہوتے ہیں، وہ مسافروں کو بہت مہنگا اور خراب کھانا فراہم کرتے ہیں۔ اس معاملے میں ہم پاکستانی ایرانیوں سے بہت بہتر ہیں۔ پاکستان میں ایسے تمام ہوٹل جو اگر چھوٹے روٹ یا ذیلی سڑکوں پر ہوں تو ’ڈرائیور ہوٹل‘ کہلاتے ہیں۔ اور اگر جی ٹی روڈ یا موٹرویز پر ہوں تو ’مڈوے ہوٹل‘ کہلاتے ہیں۔ ان تمام ہوٹلوں میں تازہ، اچھا اور مناسب قیمت والا کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ مگر سب سے زیادہ مزیدار، تازہ اور گرما گرم و نیز انتہائی سستا کھانا ڈرائیور ہوٹلوں میں ہی فراہم کیا جاتا ہے۔ ایک اور طرۂ امتیاز ان ڈرائیور ہوٹلوں کا یہ ہے کہ جتنی دیر میں آپ کسی عام ہوٹل میں کھانے کا آرڈر دے کر انتظار فرما رہے ہوں گے، اتنی دیر میں آپ کسی ڈرائیور ہوٹل میں کھانا کھا کر اور پیسوں کی ادائیگی کر کے ہوٹل سے نکل چکے ہوں گے۔ یہ اور بات ہے کہ آپ کچھ دیر ڈرائیور ہوٹل کی آرام دہ چارپائی پر کمر سیدھی کرنے کے لیے لیٹ جائیں اور کچھ قیلولہ فرما کر اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوں۔ یاد رہے کہ کسی چارپائی پر قیلولہ کرنے کے کوئی زائد چارجز نہیں لیے جاتے۔ یہ سب معہ واش روم اور نماز کی سہولت کھانے کی قیمت میں ہی شامل ہوتا ہے۔ اس قسم کی آسانیاں ایران میں عنقا ہیں۔ وہاں مڈوے ہوٹل والے مسافروں کی اچھی طرح حجامت بنانا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ مسافروں کے لیے یہ آسانیاں پاکستان میں اس حقیقت کے باوجود ہیں کہ یہاں سفر سے پہلے مسافروں میں ’حقوق مسافراں‘ کے کتابچے بھی نہیں تقسیم کئے جاتے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭