سرفروش

عباس ثاقب
میںنے اسے چند منٹ انتظار کرنے کو کہا اور غسل خانے میں جاکر لباس تبدیل کرلیا۔ منہ ہاتھ میں پہلے ہی دھو چکا تھا۔ آئینے نے بتایا کہ ہلکی ہلکی شیو بڑھی ہونے کے باوجود میں اچھا لگ رہا ہوں۔ میں نے موزے چڑھائے اور نیرج کی معیت میں حویلی کی طرف چل دیا۔ وہ مجھے مرکزی دروازے کے بجائے حویلی کے پہلو میں واقع دروازوں میں سے ایک کی طرف لے گیا۔ ہلکی سی دستک دینے پر اندر سے آواز آئی کہ دروازہ کھلا ہے۔ واقعی دھکا دیتے ہی دروازہ کھل گیا۔ میں نے دیکھا کہ امر دیپ ایک ہلکی سی شال اوڑھے کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف ہے۔
مجھ پر نظر پڑتے ہی اس کے سنجیدہ چہرے پر گرم جوش مسکراہٹ ابھری۔ ’’آؤ، آؤ بھائی بہادر، نیند تو ٹھیک آئی ناں؟‘‘۔
میں نے اسے یقین دلایا تھا کہ میں خوب گھوڑے بیچ کر سویا ہوں اور سفر کی ساری تھکن سے جان چھڑاکر خود کو بالکل تر و تازہ محسوس کررہا ہوں۔ امر دیپ نے بتایا کہ سارے گھر والے پہلے ہی جاگ چکے ہیں۔ بشن دیپ اپنے باپ کے ساتھ واہگورو کے سامنے ماتھا ٹیکنے گوردوارا گروسر صاحب گیا ہوا ہے۔ ساس اور بہو ایک بچے کی پیدائش کی مبارک باد دینے چھاجلی قصبے میں اپنے رشتے داروں کے ہاں گئی ہوئی ہیں۔ بچے پھلوں کے باغات اجاڑنے کے پسندیدہ مشن پر نکلے ہوئے ہیں۔
اس دوران نیرج حویلی کے اندرونی حصے میں جا چکا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ ناشتہ تیار ہونے کا پیغام لے کر واپس آیا۔ ناشتہ تو کیا وہ باقاعدہ مرغن قسم کا کھانا تھا۔ امر دیپ نے بھی میرا ساتھ دیا۔ کھانے کے دوران اس نے بتایا کہ اس نے لگ بھگ تین بھیگا رقبے پر سنتروں کا باغ لگا رکھا ہے۔ اس سال سنترے کی بہت اچھی پیداوار ہوئی ہے اور پھل پک کر اتارے جانے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ اس کے مطابق بچے اپنے باغ کے سنترے بہت شوق سے کھاتے ہیں اور واپسی پر جھولیاں بھر کر ساتھ لائیں گے۔ اس پر میں نے تجویز پیش کی کہ کیوں نہ ہم بھی سنترے کے باغ میں چلیں۔ سیر بھی ہوجائے گی اور ہم گپ شپ بھی کرلیں گے۔ اس نے میری تجویز کا پرجوش خیرمقدم کیا۔
موسم سرما کی نرم اور خوش گوار دھوپ میں لگ بھگ ایک فرلانگ چہل قدمی کرتے ہوئے ہم سنترے کے سینکڑوں درختوں والے ایک باغ میں پہنچ گئے۔ بچے شاید کسی دور دراز گوشے میں اپنی سرگرمیوں میں مشغول تھے۔ وہ مجھے دکھائی تو نہ دیئے، البتہ ان کے وقتاً فوقتاً شور مچانے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ امر دیپ کو دیکھتے ہی اس کے دو کارندے اس کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ ہم ان کی پیروی میں ایک گوشے میں بچھی دو چارپائیوں پر جاکر بیٹھ گئے۔ ہمارے ہر طرف موجود درخت رسیلے سنتروں سے لدے دکھائی دے رہے تھے۔ ایک عجیب بھینی بھینی مہک فضا میں پھیلی ہوئی تھی۔
امر دیپ نے فخر آمیز نظروں سے سنترے کے باغ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ ’’ہمارے خاندان کے بزرگ ہمیشہ سے اجناس کی کاشت میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ گندم، چنا، دھان ، کماد۔ لیکن جب میں نے پتاجی کا ہاتھ بٹانا شروع کیا تو میں نے پھلوں کے باغات لگانے پر خصوصی توجہ دی اور میری یہ کوشش چند ہی برسوں میں انتہائی منافع بخش قدم ثابت ہوگئی۔ سنترے کے علاوہ میں نے ساڑھے تین بھیگے رقبے پر آم اور ایک بھیگے پر امرود کے باغات لگارکھے ہیں۔ جن سے ہر موسم میں بہترین آمدنی حاصل ہوتی ہے‘‘۔
اس دوران میں امر دیپ کا ایک کارندہ ایک بڑے سے تھال میں ڈھیروں چھلے ہوئے سنترے لے آیا۔
امر دیپ نے اپنے ہاتھ سے سنترے کی کئی پھانکیں میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’لو جی، واہگورو کا نام لے کر ہمارے پنجاب کی یہ سوغات چکھو، امید ہے آپ کو پسند آئے گی‘‘۔
میں نے سنترے کی رسیلی پھانکیں کھاتے ہوئے لذیذ ذائقے کی تعریف کی تو امر دیپ خوش ہوگیا۔ میں نے امرتسر میں محکمہ زراعت کے ماہرین سے مشاورت کرکے علاقے اور آب و ہوا کے مطابق سنتروں کی بہترین قسم اگائی تھی۔ واہگورو کی کرپا ہے کہ ذائقے کے علاوہ پیداوار بھی اچھی ہے اور پیڑوں پر بیماریوں کے حملے بھی کم ہیں‘‘۔
کچھ تو سنتروں کا ذائقہ بہت عمدہ تھا، کچھ میں نے امر دیپ کی دل جوئی کے لیے کھل کر ہاتھ چلایا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مرغن کھانے کا معدے سے بوجھ ہلکا ہو گیا اور ایک کے بعد ایک ڈکاریں آنے لگیں۔ امر دیپ کا مزاج خوش گوار پاکر میں نے کہا۔ ’’امر دیپ پاہ جی، اب تو میں کچھ دن یہیںہوں، کھانا پینا اور گھومنا پھرنا چلتا رہے گا۔ لیکن میں یہاں دراصل پٹیالے کا میلا دیکھنے آیا ہوں۔ آپ اس کا بندوبست کریں‘‘۔
وہ پرجوش لہجے میں بولا۔ ’’ارے یا ر فکر ہی نہ کرو۔ میلہ تو پرسوں شروع ہوگا۔ لیکن میں تمہیں کل ہی وہاں لے چلتا ہوں۔ مجھے بھی وہاں کچھ کام ہے‘‘۔
میں نے خوش ہوکر امر دیپ کا شکریہ ادا کیا۔ طے پایا کہ ہم کل صبح سویرے جیپ میں پٹیالے روانہ ہوجائیں گے۔ ’’دونوں بھائی راستے میں بھوانی گڑھ رک کر ناشتہ کریں گے۔ وہاں کے پیڑے اور پتیسا (ایک طرح کی مٹھائی) اپنے مزے میں لاجواب ہے۔ کھاؤ گے تو لندن جاکر بھی یاد کرو گے۔ پتا جی تو فرمائش کرکے منگواتے ہیں‘‘۔
میں نے برسبیل تذکرہ پوچھ لیا۔ ’’یہاں سے کتنا دور ہے یہ بھوانی گڑھ؟‘‘۔
اس نے بتایا۔ ’’پٹیالے سے آدھے رستے میں۔ سمجھو یہاں سے بیس بائیس میل کا فاصلہ ہوگا۔ اچھا خاصا، چہل پہل والا قصبہ ہے۔ ہندوستان بھر کے لیے لاریاں مل جاتی ہیں وہاں سے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment