تھرکول منصوبہ ناکام نہیں ہوا- فنڈنگ روکی گئی ہے

وجیہ احمد صدیقی
سپریم کورٹ نے تھرکول منصوبے میں گیسی فکیشن سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کی تحقیقات نیب کے سپرد کردی ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے تھرکول پاور پراجیکٹ سے متعلق کیس کی سماعت کی، جس میں منصوبے کے چیئرمین ڈاکٹر ثمر مبارک مند بھی پیش ہوئے۔ عدالت نے آڈیٹر جنرل کو تھرکول منصوبے کا فارنسک آڈٹ کا حکم دیتے ہوئے 15 دن کے اندر رپورٹ طلب کرلی اور چیف سیکریٹری سندھ کو ہدایت کی کہ منصوبے سے متعلق اشیا قبضے میں لے لی جائیں۔ سپریم کورٹ نے تھر کول پیداواری منصوبے میں بدعنوانی پر کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔ دوسری جانب ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ناکام نہیں ہوا، بلکہ اس کی فنڈنگ روک دی گئی ہے۔ اس منصوبے کے حسابات کی جانچ پڑتال کے لیے اکائونٹنٹ جنرل پاکستان کی جانب سے پروفیشنل اکائونٹنٹ اور آڈیٹر کا تقر ر کیا گیا ہے۔ ان کا کردار اس منصوبے میں سائنسی مشیر کا ہے۔ انہوں نے ریسرچ کرکے انجینئروں اور سائنس دانوں کو رہنمائی کی ہے کہ آدھے ٹن کوئلے سے 10 میگا واٹ بجلی پیدا ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ نیب پراسیکیوٹر اصغر حیدر نے عدالت میں منصوبے سے متعلق رپورٹ پیش کی اور کہا کہ انجینئروںکے مطابق زیر زمین گیسی فیکیشن سے بجلی بنانا ممکن نہیں۔ عدالتی معاون سلمان اکرم راجا نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے اس منصوبے کو نہ نیب میں پیش کیا گیا اور نہ ہی عدالت میں ان میں سے کوئی گیا ہے۔ عدالت نے از خود نوٹس کے ذریعے اس منصوبے کی ناکامی کے اسباب جاننے کی کوشش کی ہے۔ میں نے عدالت کو بتایا کہ منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ واضح نہیں ہے۔ 30 سال تک 10 ہزار میگاواٹ بجلی کا کہا گیا تھا۔ جبکہ ماہرین کہتے ہیں کہ منصوبے سے زیر زمین پانی کم ہوگا اور اس سے ماحولیات پر بھی برا اثر پڑے گا۔ میں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ ایک کمیٹی نے کہا ہے کہ یہ ناکام منصوبہ ہے۔ مزید رقم نہیں دینی چاہیے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک کے منصوبے کی منظوری دینے والوں کو بھی دیکھنا چاہیے تھا کہ ان کے کیا مفادات تھے‘‘۔ چیف جسٹس نے عدالتی معاون سے استفسار کیا کہ کہاں گئے ڈاکٹر ثمرمبارک مند کے وہ دعوے، کیا اس معاملے کو ایف آئی اے کو نہ بھیج دیں، یا اس کی نئے سرے سے تحقیقات کرائی جائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ منصوبے پر بہت شور مچایا گیا، لیکن 100 میگا واٹ منصوبے سے 3 میگاواٹ بجلی بھی نہیں آرہی۔ اس پر خرچ ہونے والی رقم کیا ڈاکٹر ثمر مبارک مند دیں گے؟
اس حوالے سے جب ڈاکٹر ثمر مبار ک مند سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’یہ پروجیکٹ حکومت سندھ کا ہے اور اس میں فنڈنگ وفاقی حکومت کر رہی ہے۔ میڈیا میں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ جیسے یہ اربوں روپے میں نے ہی کھا لیے ہیں۔ یہ مقدمہ میرے خلاف نہیں ہے۔ اس منصوبے کے حسابات کی جانچ پڑتال کے لیے اکائونٹنٹ جنرل پاکستان کی جانب سے پروفیشنل اکائونٹنٹ اور آڈیٹر کا تقر ر کیا گیا ہے۔ اس لیے معاملہ صاف اور شفاف ہے۔ میرا کردار اس منصوبے میں سائنسی مشیر کا ہے۔ میں نے ریسرچ کرکے انجینئروں اور سائنس دانوں کو رہنمائی کی ہے کہ آدھے ٹن کوئلے سے 10 میگا واٹ بجلی پیدا ہوسکتی ہے۔ ہماری ٹیم وہی ہے، جو اٹامک انرجی میں کام کرتی تھی۔ اس پر کبھی اور کہیں بھی اعتراض نہیں ہوا۔ دراصل یہ ایک زمین دوز پروجیکٹ تھا اور احسن اقبال نے اس کی فنڈنگ روک دی تھی۔ جس کی وجہ سے ہم 10 میگا واٹ سے زیادہ بجلی نہیں بنا سکے‘‘۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ’’میں نے عدالت کو بتایا ہے کہ ہم نے 100 میگاواٹ کا پلانٹ لگایا اور سندھ حکومت کا یہ منصوبہ 2009ء میں منظور ہوا۔ اکتوبر 2012ء میں 900 ملین فنڈ ملا اور 15-2014ء میں 100 میگاواٹ کے منصوبے بن گئے تھے۔ 13 ارب 80 کروڑ روپے منصوبے پر خرچ ہوئے۔ یہ منصوبہ ناکام نہیں ہوا۔ اس کی فنڈنگ روک دی گئی ہے‘‘۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ کہا جارہا ہے کہ زمین میں کوئلے کے ساتھ پانی ہونے کی وجہ سے ماحولیات کو نقصان پہنچے گا تو میں نے باقاعدگی سے سوائل ٹیسٹ کی رپورٹس صوبائی حکومت کو بھیجی ہیں۔ یہ منصوبہ ناکام نہیں، بلکہ اس سے30 برسوں تک 2500 میگا واٹ بجلی پیدا ہوسکتی ہے‘‘۔ اس سوال پر کہ اس منصوبے سے ماحولیات کو نقصان پہنچ سکتا ہے؟ ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے کہا ’’اس منصوبے میں کوئی ماحولیاتی آلودگی نہیں ہوئی۔ آسٹریلیا کی ایک کمپنی بھی زیر زمین گیسی فکیشن کر رہی تھی‘‘۔ اس سوال پر کہ عدالت میں وکلا نے کہا ہے کہ گیسی فیکشن ایک ناکام تجربہ ہے؟ تو ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا کہنا تھا کہ ’’وکیل اس منصوبے کے بارے میں نہیں بتا سکتے‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment