اقبال اعوان
کراچی کے علاقے پاک کالونی میں واقع ہندوئوں کے شمشان گھاٹ کے احاطے میں واقع کالی ماتا کے مندر میں کالے بکرے کی بھینٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ شمشان گھاٹ پر مردے جلانے کے علاوہ ہندوئوں کے قبرستان میں بچوں کی تدفین بھی جاتی ہے۔ گورکنوں کا کہنا ہے کہ ایک مردے کو جلانے پر چار ہزار روپے اخراجات آتے ہیں، جبکہ قبرستان میں تدفین پر 7 ہزار روپے کا خرچ آتا ہے۔ مردے جلانے والوں کا کہنا ہے کہ شمشان گھاٹ میں پہلے بلائیں ڈرایا کرتی تھیں، جس کی وجہ سے شمشان گھاٹ پر کالا جادو کرکے حصار بندی کی گئی۔ مذکورہ شمشان گھاٹ پر ماہانہ 25 سے 40 مردے جلانے کیلئے لائے جاتے ہیں۔ یہاں بیک وقت 7 مردے جلائے جا سکتے ہیں۔ چتا کی راکھ بعض لواحقین نیٹی جیٹی پل سے سمندر یا دریائے سندھ میں بہاتے ہیں۔ جبکہ بعض لواحقین اپنے پیاروں کی چتا کی راکھ گنگا میں بہانے کیلئے بھارت لے جاتے ہیں۔ کراچی میں قیام پاکستان کے وقت تین شمشان گھاٹ ہوا کرتے تھے جن میں ڈرگ روڈ کینٹ بازار، کیماڑی ریلوے ٹریک کے ساتھ کا علاقہ جو اب مسان روڈ کہلاتا ہے اور پاک کالونی میں ریکسر لائن پل کے قریب واقع شمشان گھاٹ شامل تھے۔ اسی طرح میوہ شاہ، مواچھ گوٹھ اور شیریں جناح کالونی سمیت دیگر علاقوں کے قبرستانوں میں ہندوئوں کی تدفین کیلئے بھی الگ قطعہ اراضی مخصوص تھا۔ اب کراچی میں ہندوؤں کے قبرستان صرف پاک کالونی اور میوہ شاہ قبرستان میں واقع ہیں اور شمشان گھاٹ بھی صرف پاک کالونی والا ہی بچا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اس شمشان گھاٹ کی رکھوالی 125 سال کی عمر میں مرنے والا سادھو درگا بھارتی بابا مہاراج کرتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شمشان گھاٹ کے انتظامی امور وہاں کے مقامی بلوچ افراد نے سنبھال لئے۔
’’امت‘‘ نے خصوصی رپورٹ کی تیاری کیلئے کراچی کے اس واحد شمشان گھاٹ میں جاکر ذمہ داروں اور گورکنوں سے بات چیت کی۔ اس کیلئے شمشان گھاٹ کے انچارج مراد بلوچ نے شمشان گھاٹ کے ذمہ دار رام چند سے اجازت لی تھی۔ شمشان گھاٹ کے احاطے میں کالی ماتا کا مندر بھی ہے۔ واضح رہے کہ سندھ کے شہروں عمرکوٹ، ٹھٹھہ اور بلوچستان کے شہر حب میں نورانی مزار جانے کے دوران راستے میں کالی ماتا کے مندر پڑتے ہیں۔ پاک کالونی شمشمان کے گورکنوں کا کہنا تھا کہ چند سال قبل کراچی کا یہ واحد کالی ماتا کا مندر تعمیر کیا گیا تھا۔ گورکن رحمان کا کہنا تھا کہ ’’کالی ماتا کے مندر پر کالے بکرے کی بلی (قربانی) دی جاتی ہے۔ شہر بھر سے ہندو اپنی منتیں پوری کرانے کیلئے کالے بکرے لے کر آتے ہیں۔ کالی ماتا کے مندر کے احاطے میں ایک خاص کمرہ ہے جس میں کالی ماتا کی مورتی ہے جو ایک مردانہ مورتی کے اوپر پاؤں رکھے ہوئے کھڑی ہے۔ سادھو بکرے کو لے کر اس کمرے میں جاتا ہے۔ اگر بکرا جانے سے رکے تو بکرا لانے والے کو کہا جاتا ہے کہ اس کی بلی نہیں ہوسکتی کیونکہ بکرے نے انکار کردیا ہے۔ بھینٹ اس بکرے کی ہوتی ہے جو کالی ماتا کی مورتی تک باآسانی چلا جائے اور پھر دوسرا بکرا لانے کا کہا جاتا ہے۔ اس بکرے کو کالی ماتا کی مورتی کے چرنوں (قدموں) میں کاٹا جاتا ہے۔ گردن کٹنے سے نکلنے والی خون کی دھار سے سادھو بھی پیالہ بھرتا ہے اور پیتا ہے۔ اس کے بعد اس خون سے کالی ماتا کی مورتی کو نہلایا جاتا ہے‘‘۔
شمشان گھاٹ کے گورکن پرویز بلوچ کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے بڑوں نے بتایا تھا کہ یہ شمشان گھاٹ 1930ء میں بنایا گیا۔ پاکستان ہندو کونسل نے 2010ء میں اس کی تعمیر نو کرائی۔ کراچی کا واحد شمشان گھاٹ ہونے کی وجہ سے شہر بھر کے ہندو اپنے مردے اسی جگہ لاتے ہیں‘‘۔ اس نے مردے جلانے کے شیڈ میں ایک چتا دکھائی جس کی راکھ سلگ رہی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ مردہ گزشتہ روز جلایا گیا تھا۔ راکھ کو ٹھنڈا ہونے میں کم از کم 24 گھنٹے لگتے ہیں اور بعد میں راکھ ہنڈیا میں اکٹھی کرکے راکھ کے برتن (استیاں) رکھنے والے کمرے میں رکھ دی جاتی ہے۔ تین روز بعد ورثا آکر راکھ کی ہنڈیا لے جاتے ہیں۔ گورکن پرویز کا کہنا تھا کہ وہ 17 سال سے مردے جلانے کا کام کر رہا ہے۔ مردے کو جلانے سے قبل لواحقین چتا پر کچے ناریل توڑ کر عبادت کرتے ہیں اور پھر شمشان گھاٹ کے اندر لاتے ہیں۔ جلانے کیلئے گھی اور مختلف لکڑیوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ ’’شمشان گھاٹ سے متصل قبرستان میں پہلے ہندوئوں کے کافی مردے دفنائے جاتے تھے، تاہم اب زیادہ تر جلائے جاتے ہیں۔ جگہ کم ہونے کی وجہ سے اب صرف دس سال تک کی عمر کے بچوں کی لاشیں دفنائی جاتی ہیں۔ شمشان گھاٹ کی تعمیر نو اور باؤنڈری وال بنانے سے چوریاں کم ہوگئی ہیں۔ پہلے اکثر شمشان گھاٹ سے مردے کی راکھ چرائی جاتی تھی۔ کیونکہ کالے جادو میں مسان (مردے کی راکھ) کی بڑی اہمیت ہے‘‘۔ اس کا دعویٰ تھا کہ ’’شمشان گھاٹ میں پہلے بلائیں بھی تنگ کرتی تھیں۔ قریب سے گزرنے والے لوگوں کو ڈرائونی شکلیں حملہ کرتی نظر آتی تھیں، جس کے بعد مہاراج درگا بھارتی بابا نے سارے شمشان گھاٹ پر کالے جادو کا کئی روز کا جاپ کیا، جس کے بعد ڈراؤنے واقعات نہیں ہوئے‘‘۔ پرویز نے شمشان گھاٹ کے احاطے میں چار کبوتر خانے بھی دکھائے، جہاں سینکڑوں جنگلی اور پالتو کبوتر موجود تھے۔ اس نے مختلف مورتیاں دکھائیں جو شمشان گھاٹ میں سہولتیں فراہم کرنے والوں کی تھیں۔ شمشان گھاٹ پر بجلی کا فقدان نظر آیا۔ گورکنوں کا کہنا تھا کہ اکثر رات کو ایمرجنسی لائٹیں جلا کر مردے جلائے جاتے ہیں۔ جبکہ مین گیٹ اور احاطے میں سیوریج لائنیں خراب ہو چکی ہیں۔ جگہ جگہ گندا پانی جمع ہے۔ شمشان گھاٹ کے انچارج مراد بلوچ کا کہنا تھا کہ شمشان گھاٹ کی دوبارہ تعمیر اور مرمت کرانے سے کافی حد تک پریشانی کم ہوگئی ہے۔
٭٭٭٭٭