نجم الحسن عارف
پی ٹی آئی کی حکومت نے میٹرو بسوں کیلئے سبسڈی کی اگلے ایک سال تک کیلئے منظوری دیدی ہے، تاہم ایک ماہ کے اندر عوام کو میٹرو کرایوں کے معاملے میں دی جانے والی سہولت میں کمی ضرور کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں تین مختلف آپشنز پر غور کیا جا رہا ہے۔ ’’امت‘‘ کو یہ بھی معلوم ہوا ہے ’’پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی‘‘ نے حکومت کو عوامی سہولت میں کمی کے حق میں رائے نہیں دی تھی، بلکہ یہ فیصلہ محکمہ ٹرانسپورٹ اور حکومت کی سطح پر کیا جارہا ہے۔ میٹرو بس لاہور کے کرائے کو 20 روپے سے بڑھانے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کرنے والے سرکاری حکام اور ماہرین اس وقت 2010ء سے اس کرائے کو ایک ’’بنچ مارک‘‘ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق میٹرو بس کے کرائے میں اضافہ چار گنا تک ہو سکتا ہے اور اس کے بعد بھی میٹرو بس کا بقیہ خسارہ سبسڈی سے ہی پورا کیا جائے گا۔ دوسری جانب لاہور، راولپنڈی اور ملتان میں میٹرو بس پر سفر کرنے والے عوام نے میٹرو کرایوں میں سبسڈی کم کرنے کے حکومتی فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔ جبکہ جماعت اسلامی کے ترجمان امیرالعظیم نے حکومت کے اس فیصلے کو عوام دشمنی پر مبنی فیصلہ قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس سے اس کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ لاہور کی میٹرو بس میں لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کے افراد ہی سفر کرتے ہیں۔ ان میں طلبا و طالبات، دفتری ملازمین، فیکٹری مزدور، کاروباری مراکز میں سیلز مین کے طور پر کام کرنے والے عام لوگ، حتیٰ کہ گھروں میں کام کرنے والی خواتین بھی شامل ہوتی ہیں۔ پچھلی حکومت نے جب میٹرو بس لاہور کے منصوبے کا آغاز کیا تو اس وقت کے تخمینے کے مطابق 68 ہزار افراد نے یومیہ سفر کرنا تھا۔ لیکن آج اس میٹرو بس سے روزانہ ایک لاکھ 35 ہزار کے قریب شہری روزانہ سفر کر رہے ہیں۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق حکومت نے لاہور میں ٹریفک کے اژدہام سے نمٹنے اور ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرنے کے لئے 1997-1998ء میں بین الاقوامی ادارے ’’جائیکا‘‘ کے علاوہ اپنے اداروں سے مختلف رپورٹس مرتب کرائی تھیں۔ ان پر عمل کا ابھی وقت نہ آیا تھا کہ 1999ء میں حکومت چلی گئی اور مشرف کا اقتدار شروع ہو گیا۔ 2008ء میں دوبارہ میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے پرانے منصوبوں اور خوابوں میں رنگ بھرنے کی ٹھان لی۔
ذرائع کے مطابق نوّے کی دہائی کے اواخر میں ٹریفک مسائل کے حل کیلئے چار سے پانچ مختلف منصوبے پیش کئے گئے۔ ان میں سب سے اہم منصوبے کو گرین لائن سے رپورٹ کیا گیا۔ اب اسی گرین لائن پر میٹرو بس منصوبہ آپریشنل ہو چکا ہے۔ دوسرا حل اورنج لائن ٹرین کے روٹ کا تھا کہ اس پر بھی حکومت ’’ماس ٹرانزٹ‘‘ کا بندوبست نہ کرے گی تو ٹریفک کے مسائل پر قابو نہیں پایا جا سکے گا۔ اورنج لائن ٹرین کا التوا میں پڑا منصوبہ دوسرا حل تھا۔ تیسرے حل کو ماہرین نے پرپل لائن اور چوتھے حل کو بلیو لائن کا نام دیا تھا۔ لیکن بعد میں یہ منصوبے محض ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کے مسائل پر قابو پانے کے منصوبے نہ رہے، بلکہ بڑے اہم انتخابی و سیاسی منصوبوں کی شہرت پا گئے۔ اس صورتحال میں نواز لیگ نے ان منصوبوں کو عوام کو اچھی اور سستی سفری سہولیات کے منصوبوں کے طور پر پیش کیا۔ جبکہ اس کے مخالفین خصوصاً تحریک انصاف اور ’’ق‘‘ لیگ کی قیادت نے انہیں سرکاری وسائل کا غلط استعمال قرار دیا۔ اب پی ٹی آئی اور ق لیگ کی حکمرانی کے دور میں ایک مرتبہ پھر میٹرو بس پر حملہ ہوا ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق لاہور، ملتان اور راولپنڈی میں میٹرو بس کے مسافروں سے لیے جانے والے کرائے میں اضافہ اگلے پندرہ دن سے 30 دنوں میں فائنل ہو جائے گا۔ خیال رہے کہ لاہور میں جہاں یومیہ ایک لاکھ 35 ہزار شہری اس سے مستفید ہو رہے ہیں، وہیں راولپنڈی، اسلام آباد کے درمیان چلنے والی میٹرو بس سروس بھی جڑواں شہروں کے عوام اور پاکستان بھر سے اسلام آباد آنے والے شہریوں کے لئے انتہائی مفید ثابت ہو چکی ہے۔ البتہ ملتان میٹرو جس کی تعمیر کے دنوں سے ہی کرپشن کے الزامات سامنے آنا شروع ہو گئے تھے، میں میٹرو بس کو سب سے کم مسافر دستیاب ہو رہے ہیں۔ اہالیان ملتان عمومی طور پر اس منصوبے کو اپنے لیے مفید خیال نہیں کرتے تھے۔ لیکن اب اس سے بہائو الدین زکریا یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کی بڑی تعداد کے علاوہ عام لوگ بھی سفر کرتے ہیں، جن کی تعداد یومیہ 31 ہزار مسافروں کو چھو چکی ہے۔ ملتان میٹرو کا کرایہ بڑھنے سے اس کے مسافروں میں کمی میں بھی خدشہ ہے کہ طلبا و طالبات کے لئے یہ قابل برداشت نہ ہوگا۔ ’’امت‘‘ نے جب عام مسافروں سے اس سلسلے میں بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے بجلی، گیس اور پیٹرول کے بم کے علاوہ ڈالر کا بم بھی گرا لیا اور اب براہ راست سفر بھی مہنگا کر رہی ہے۔ یہ برداشت نہیں ہو گا۔ حکومت کو چاہئے کہ عام آدمی کی زندگی تنگ کرنے کے بجائے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالے، تاکہ کوئی بامعنی نتائج نکل سکیں۔ عوام کو اگر حکمران کچھ دینے کی پوزیشن میں نہیں تو کم از کم پہلے سے میسر سہولتیں تو واپس نہ لیں۔
اس حوالے سے جماعت اسلامی پاکستان کے ترجمان امیرالعظیم نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’پی ٹی آئی کی حکومت اپنے تمام تر دعوئوں کے برعکس عمل کر رہی ہے۔ اگر بے تدبیری کے تحت ہی سہی میٹرو بس کے منصوبے مکمل ہو گئے ہیں اور عوام ان سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں تو حکومت کو اس بے ڈھنگے پن سے عوام کی اس سہولت پر کلہاڑا نہیں چلانا چاہئے۔ اگر عوام سے کوئی سہولت واپس بھی لینا چاہتی ہے تو حکومت کو چاہئے کہ پہلے اس کا بہتر متبادل پیش کرے اور اپنے اقدامات سے عوامی ریلیف اور بہتری کا اہتمام کرے۔ ایک جانب حکومت عوام پر مہنگائی کا بوجھ لاد رہی ہے اور دوسری جانب سفر بھی مہنگا کر رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کا یہ بڑا ظالمانہ اقدام ہوگا۔ اس لیے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کو چاہئے کہ اس معاملے کا بھی نوٹس لیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت عوام کو ہر شعبے میں دیوار کے ساتھ لگا رہی ہے۔ بجلی، گیس، پیٹرول، پانی سب کچھ مہنگا کر دیا۔ اب کرائے بڑھانے کا بھی اعلان کر دیا۔ عدلیہ کو اس میں ضرور مداخلت کرنا چاہئے اور نوٹس لینا چاہئے‘‘۔
٭٭٭٭٭