مدرسے کے گارڈ کی ہلاکت لواحقین خودکشی ماننے کے لئے تیار نہیں

عظمت علی رحمانی
کراچی میں بلدیہ ٹائون کے علاقے سعیدآباد میں واقع شان مصطفیٰ مسجد و مدرسہ کے گارڈ زاہد حسین کی ہلاکت کو لواحقین خودکشی ماننے کیلئے تیار نہیں۔ متوفی کے چھوٹے بھائی محمد حسین نے اس حوالے سے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’ہم کسی بھی طور پر تسلیم نہیں کرتے کہ یہ خود کشی ہے۔ ایسا کہہ کر ہمارے زخموں پر نمک چھڑکا جارہا ہے۔ ایک شخص جو مذہبی گھرانے سے ہو اور مسجد میں موجود ہو، وہ خود کشی کیوں کرے گا؟ زاہد حسین کے پستول کے دو میگزین تکئے کے نیچے رکھے ہوئے تھے۔ جبکہ اس کی لاش اس حالت میں پائی گئی کہ جیسے سینے پر ہاتھ باندھے، مزے سے ٹانگیں سیدھی کرے کوئی پرسکون نیند سو رہا ہو۔ خود کشی کرنے والا کبھی بھی اس طرح نہیں کرتا کہ سکون سے لیٹ کر خود کو گولی مار لے۔ پھر یہ کہ گولی لگنے کے بعد دم نکلنے تک بندہ تڑپتا پھڑکتا ضرور ہے۔ جبکہ یہاں ایسے بھی کوئی شواہد نہیں، جس سے معاملہ مشکوک ہوتا ہے‘‘۔ محمد حسین کا مزید کہنا تھا کہ ’’زاہد حسین، عام انتخابات سے لگ بھگ 3 ماہ قبل ہی شان مصطفی مسجد کے خطیب اور مدرسہ جامعۃ المصطفی کے مہتمم مولانا مفتی عابد مبارک کے ساتھ بطور سیکورٹی گارڈ تعینات ہوا تھا۔ ہم 6 بھائی ہیں اور سب سے بڑا زاہد حسین تھا، جس نے 10 سال تک پاکستان آرمی میں بھی ملازمت کی تھی۔ ہمارا آبائی تعلق پنجاب کے ضلع ساہیوال سے ہے اور ہم کراچی میں ہی مقیم ہیں۔ ہمارے بھائی زاہد حسین کی اہلیہ کا دو سال پہلے انتقال ہو گیا تھا اور ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی‘‘۔
واضح رہے کہ بلدیہ ٹائون سعیدآباد کے علاقے گلشن غازی بلاک اے سندھی مالا کے رہائشی 45 سالہ زاہد حسین کی موت معمہ بن گئی ہے۔ جمعرات کی شب 8 بج کر 45 منٹ پر سعید آباد تھانے کی حدود سیکٹر 8 سی میں واقع شان مصطفیٰ مسجد و مدرسہ کے گارڈ زاہد حسین ولد مولانا منظورحسین کی لاش کی اطلاع پولیس کو موصول ہوئی تھی۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر لاش تحویل میں لے کر جائے وقوعہ کا معائنہ کیا اور لاش سول اسپتال منتقل کردی تھی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ متوفی کافی عرصے سے مدرسے کا سیکورٹی گارڈ تھا اور ابتدائی تفتیش سے واقعہ خودکشی معلوم ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایس ایچ او تھانہ سعید آباد، عرض محمد کا کہنا ہے کہ جمعرات کی شب مسجد شان مصطفی کے سیکورٹی روم میں زاہد حسین ولد منظور حسین بیٹھا تھا کہ اس کے پاس موجود 30 بور پستول سے گولی چل گئی، جو اس کی کنپٹی پر لگی اور یوں موت واقع ہوگئی۔ اس کے پاس پستول مدرسہ انتظامیہ اور مفتی عابد مبارک کے نام پر ہے، جس کو ہم مزید تحقیقات کیلئے فارنسک جانچ کیلئے بھجوا رہے ہیں اور ساتھ ہی خول بھی بھجوائیں گے۔ رپورٹ آنے کے بعد ہی مزید کارروائی کی جاسکتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر پولیس کی جانب سے پستول، خول اور خون کے نمونے وغیرہ 24 گھنٹے بعد بھی فارنسک ٹیسٹ کیلئے نہیں بھیجے گئے، جس کی وجہ سے تفتیش میں سست روی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ اگر خودکشی یا اتفاقیہ طور پر گولی چلنے کے پہلو کو متوفی کے اہل خانہ تسلیم نہیں کریں گے تو ہم ان کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیں گے، جس کے بعد مزید کارروائی آگے بڑھے گی۔
اس حوالے سے مسجد شان مصطفی اور مدرسہ جامعۃ المصطفی کے امام و مہتمم مفتی عابد مبارک نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ… ’’میں گھر پر تھا کہ معلوم ہوا کہ سیکورٹی گارڈ کے روم میں گولی چلی ہے۔ ہم اور پولیس تقریباً ساتھ ساتھ ہی وہاں پہنچے‘‘۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’زاہد حسین ریٹائرڈ فوجی تھا اور مدرسہ کے قریب ہی اس کا گھر تھا۔ تاہم اس نے مدرسے میں ہی رہائش رکھی ہوئی تھی۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ کیا ہوا ہے۔ ہم نے اس کے ساتھ اچھا وقت گزارا تھا۔ وہ بہت اچھا انسان تھا۔ ہم نے نماز جمعہ کے بعد نماز جنازہ پڑھا کر اس کی بلدیہ 9 نمبر کے قبرستان میں تدفین کر دی ہے۔ اس کے اہل خانہ پوسٹ مارٹم کیلئے تیار نہیں تھے۔ تاہم میں نے ان سے کہا ہے کہ پوسٹ مارٹم ضرور کراؤ‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment