محمد قاسم/ صفی علی اعظمی
قندھار پولیس چیف کی ہلاکت بلیک واٹر کیلئے بھی بڑا دھچکہ ثابت ہوئی ہے۔ بدنام زمانہ پرائیویٹ ایجنسی کا سربراہ ایرک پرنس افغان جنگ ٹھیکے پر لینے کیلئے جنرل عبدالرازق کو 50 ملین ڈالر ایڈوانس دینے پر رضامند ہوگیا تھا۔ دوسری جانب قندھار میں بڑی کارروائی سے افغان طالبان کی دھاک بیٹھ گئی ہے۔ دیگر صوبوں کے گورنرز اور پولیس چیفس میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور انہوں نے اپنی نقل و حرکت محدود کردی ہے۔ ادھر امریکی میڈیا کے مطابق جنرل عبدالرازق جنگی جرائم میں اقوام متحدہ کو بھی مطلوب تھا۔ جبکہ مارے گئے پولیس چیف کے قریبی حلقوں کی جانب سے ان کے قتل کا الزام صدر اشرف غنی پر بھی لگایا جا رہا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق افغان طالبان کے حملوں کے ڈر سے سابق افغان انٹیلی جنس چیف رحمت اللہ نبیل زیر زمین چلے گئے ہیں۔ افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار کے گورنر ہائوس میں طالبان حامی افغان سیکورٹی اہلکار کی فائرنگ سے گورنر زلمے ویسا، صوبائی پولیس چیف جنرل عبدالرازق، جنوب مشرقی افغانستان کیلئے این ڈی ایس کے سربراہ جنرل عبدالمومن اور نائب پولیس چیف نبی الہام کی ہلاکت کے بعد گزشتہ روز (جمعہ کو) قندھار میں سرکاری طور پر سوگ رہا، جبکہ افغانستان کے دیگر صوبوں کے گورنرز اور پولیس سربراہان میں بھی خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ جمعرات کو افغان طالبان کے حمایتی گارڈ کے حملے میں اہم ہلاکتوں کے بعد جہاں ایک طرف قندھار پر افغان طالبان کے قبضے کی راہ ہموار ہو گئی ہے تو دوسری جانب قندھار کے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ تاہم سب سے بڑا دھچکہ بلیک واٹر کے سربراہ ایرک پرنس کو لگا ہے، جس نے حال ہی میں کابل میں جنرل عبدالرازق اور افغان انٹیلی جنس کے سابق سربراہ رحمت اللہ نبیل کے ساتھ ملاقات کی تھی اور انہیں پچاس ملین ڈالر ایڈوانس دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی، جس کے بعد بلیک واٹر کو افغان جنگ ٹھیکے پر دے دی جاتی۔ ذرائع کے مطابق ایرک پرنس، رحمت اللہ نبیل اور جنرل عبدالرازق کے درمیان یہ ملاقات خفیہ طور پر ہوئی تھی۔ اس منصوبے پر کئی مہینوں سے کام ہو رہا ہے، تاہم افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اس منصوبے کے مخالف ہیں۔ حالیہ انتخابات کے بعد اس حوالے سے پیش رفت کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کی سن گن ملنے پر افغان صدر اشرف غنی نے کھل کر بلیک واٹر کی افغان جنگ میں شرکت کی مخالفت کی۔ واضح رہے کہ رحمت اللہ نبیل نہ صرف افغان انٹیلی جنس ایجنسی ’’این ڈی ایس‘‘ کے چیف رہے ہیں بلکہ انٹیلی جنس چیف کے عہدے سے استعفے کے بعد وہ دو مہینے تک امریکا میں بلیک واٹر کے ساتھ کام کر چکے ہیں اور یہ سارا منصوبہ انہوں نے ہی ایرک پرنس کے ساتھ مل کر تیار کیا تھا۔ انہوں نے ایرک پرنس کو پاکستان مخالف اہم افغان کمانڈروں کے نام دیئے تھے کہ ان کو بلیک واٹر کے ساتھ پارٹنر بنایا جائے۔ ان میں سرفہرست نام جنرل عبدالرازق کا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ جنرل عبدالرازق نے ایرک پرنس کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا تھا کہ وہ جب تک زندہ ہیں، پاکستان اور افغان طالبان کے دشمن رہیں گے۔ چاہے طالبان افغانستان میں دوبارہ اقتدار میں ہی کیوں نہ آجائیں۔ وہ کسی نہ کسی طریقے سے ان کے خلاف جدوجہد کرتے رہیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جنرل عبدالرازق کے طالبان کے حامی گارڈ کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد بلیک واٹر کا یہ منصوبہ ناکام ہو گیا ہے۔ کیونکہ رحمت اللہ نبیل کو افغانستان میں اتنا سفاک اور طاقتور کوئی اور کمانڈر میسر نہیں۔ ذرائع کے بقول جنرل عبدالرازق نے قندھار میں اغوا برائے تاوان کے ذریعے کروڑوں ڈالر کمائے۔ جبکہ وہ افیون کے اسمگلروں اور تاجروں سے ماہانہ بھتے وصول کرتے تھے۔ ان کے کئی نجی جیل خانے بھی موجود ہیں، جن میں وہ مالدار لوگوں کو اغوا کرنے کے بعد تاوان وصول کرنے کیلئے رکھتے تھے۔ وہ سیاسی مخالفین کو بھی اغوا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف ایک طاقتور مافیا کی شکل اختیار کر گئے تھے، بلکہ انہوں نے باقاعدہ ایک نجی ملیشیا بھی بنا رکھی تھی اور اسی نجی ملیشیا کو وہ بلیک واٹر میں ضم کرنا چاہتے تھے۔ ان کا منصوبہ تھا کہ بلیک واٹر کے ساتھ مل کر یہ تاثر دیا جائے کہ یہ افغان ملیشیا ہے، جو طالبان کے خلاف مزاحمت کر رہی ہے۔ حالانکہ اس ملیشیا کی تنخواہیں اور دیگر ساز و سامان بلیک واٹر ہی کو مہیا کرنا تھا۔ ذرائع کے مطابق جنرل عبدالرازق کی ہلاکت کے بعد سابق انٹیلی جنس چیف رحمت اللہ نبیل زیر زمین چلے گئے ہیں۔ دوسری جانب قندھار میں طالبان کی بڑی کارروائی کے بعد افغانستان کے دیگر صوبوں کے گورنروں اور پولیس سربراہان میں خوف پھیل گیا ہے۔ گزشتہ روز گورنرز اور پولیس سربراہان نماز جمعہ کیلئے بھی باہر نہیں نکلے۔ جمعہ کے روز چونکہ افغانستان میں چھٹی ہوتی ہے، اس لئے روزمرہ کے معاملا ت بھی معطل رہے۔ جبکہ پولیس سربراہان نے اپنی سیکورٹی کے حوالے سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا شروع کر دی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ افغان طالبان کے حمایتی گارڈ کے حملے سے اہم فوجی کمانڈروں اور پولیس سربراہان کے گارڈز کے حوالے سے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ ان میں بھی کوئی طالبان کا حمایتی ہو۔ افغانستان کے شمال اور جنوب مشرقی صوبوں کے گورنروں نے خاص طور پر احتیاطی تدابیر اپنانا شروع کر دی ہیں۔ یہ تاثر بھی بڑھ رہا ہے کہ طالبان جس وقت اور جہاں چاہیں کسی کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ادھر جمعہ کی شام تک افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل اسکاٹ ملر منظر عام پر نہیں آئے، جس سے ان کے ہلاک یا زخمی ہونے کے شہبات بڑھ رہے ہیں۔
دوسری جانب افغان نیوز پورٹل آریان نیوز نے انکشاف کیا ہے کہ جنرل عبدالرازق خان نے اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کیلئے اپنے ہم خیال جنگجو سرداروں، گورنر بلخ عطا نور اور امریکی عسکری حکام کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ وسیع کرلیا تھا۔ جبکہ درجنوں وار لارڈز کے ساتھ میٹنگ بھی کرلی گئی تھیں۔ یہ اطلاعات ملنے پر ڈاکٹر اشرف غنی کی جانب سے شدید ناراضی کا اظہار کیا گیا تھا۔ تاہم امریکیوں کی حمایت سے جنرل عبدالرازق کی ہمت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ انہوں نے اشرف غنی حکومت کو اہمیت دینا چھوڑ دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گورنر بلخ عطا نور سمیت جنرل عبدالرازق کے کئی قریبی دوستوں نے الزام لگایا ہے کہ ان کے قتل میں اشرف غنی ملوث ہیں۔ کیونکہ انتہائی محفوظ مقام اور بھاری سیکورٹی کی موجودگی میں عبدالرازق خان کا قتل ظاہر کرتا ہے کہ یہ کارروائی اندرونی طور پر سازشوں میں مصروف ان لوگوں کی ہے، جو اعلیٰ حکومتی عمائدین کے آلہ کار تھے۔ ادھر نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں بھی جنرل عبدالرازق اور صدر اشرف غنی کے باہمی اختلافات اور لڑائیو ں کی تصدیق کی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صدر اشرف غنی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور رشوت ستانی کی اطلاعات پر قندھار پولیس چیف کو فارغ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جنرل عبدالرازق کی پشت پر امریکیوں کا دست شفقت تھا۔ کیونکہ امریکی عسکری حکام کا خیال تھا کہ جنرل عبدالرازق کو برطرف کر دیا گیا تو پھر جنوبی افغانستان میں طالبان کیخلاف کوئی کھڑا نہیں ہوگا اور یوں قندھار اور پھر کابل غیر محفوظ ہوجائیں گے۔ روئٹرز نیوز ایجنسی نے یاد دلایا ہے کہ مئی 2017ء میں اقوام متحدہ کی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کی جانب سے جنرل عبدالرازق کو جنگی جرائم کی تفتیش کے سلسلے میں نوٹس بھیجا گیا تھا۔ لیکن امریکی حکام کی سرپرستی کی وجہ سے ان کیخلاف تشدد اور جنگی جرائم کی تحقیقات روک دی گئی تھیں۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے صحافی گریم اسمتھ کا کہنا ہے کہ جنرل عبدالرازق کو قتل کرکے طالبان نے ایک بڑی جنگی فتح حاصل کی ہے اور قندھار کو تقریباً فتح کرلیا ہے۔ امریکی سیکریٹری آف ڈیفنس جیمس میٹس نے بھی جنرل عبدالرازق کی ہلاکت کو بڑے اسٹرٹیجک نقصان سے تعبیر کیا ہے۔ جبکہ افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ اسکاٹ ملر کا ایک ٹویٹ بھی سامنے آیا ہے، جس میں لکھا گیا ہے کہ جنرل عبدالرازق کی ہلاکت سے وہ ایک اچھے دوست سے محروم ہوگئے ہیں۔ بھارتی نیوز پورٹل ٹائمز نائو کے مطابق جنرل عبدالرازق کی ہلاکت کے بعد افغانستان میں سیکورٹی خلا پیدا ہوگیا ہے اور طالبان کو جنوبی افغانستان میں روکنے والا کوئی باقی نہیں بچا۔ وائس آف امریکا پشتو سروس کے مطابق جنرل عبدالرازق کے قریبی ساتھیوں نے صدر ڈاکٹر اشرف غنی سے مطالبہ کیا ہے کہ قندھار پولیس کا نیا سربراہ جنرل عبدالرازق خان کے چھوٹے بھائی تدین خان کو بنایا جائے۔ واضح رہے کہ جنرل عبدالرازق پاکستان اور افغان طالبان کی مخالفت کے ساتھ ساتھ حزب اسلامی کے ساتھ مذاکرات اور اسے سیاسی دھارے میں لانے کے بھی شدید مخالف تھے۔
٭٭٭٭٭