ضیاءالرحمن چترالی
روس کے ڈاکٹر علی پولسن حالیہ برسوں میں اسلام قبول کرنے والی نامور شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک ملحد گھرانے میں جنم لینے والے ڈاکٹر پولسن راہ حق کی تلاش میں در در گھومے ہیں اور بالآخر وہ اسلام کی آغوش میں اپنا گوہر مراد پانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کا یہ سفر دلچسپ بھی ہے اور ایمان افروز بھی۔ وہ 1956ء روسی دارالحکومت ماسکو میں پیدا ہوئے۔ 1978ء میں ماسکو یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں اپنی گریجویشن کی تعلیم مکمل کی۔ اگرچہ ان کا خاندان کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتا تھا، مگر انہوں نے روح کی تسکین کیلئے مذہب کا سہارا لیا اور عیسائیت قبول کر کے چرچ میں پادری بن گئے۔ مگر مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کے مصداق ان کی پیاس اس وقت تک بڑھتی گئی، جب تک وہ ساقی کوثرؐ کے مے خانے کا رخ نہیں کیا۔ ڈاکٹر پولسن کی کہانی انہی زبانی پیش خدمت ہے:
’’میں نے ایک غیر مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی، جو خدا پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ میں اسی ماحول میں پروان چڑھا، لیکن بچپن سے ہی میں دل میں ’’نامعلوم‘‘ خدا پر یقین رکھتا تھا، جو ہمیشہ میری مدد کر سکتا ہے۔ میں نے ماسکو ٹیسٹ یونیورسٹی کے شعبہ فلاسفی میں خاص طور پر اس لئے داخلہ لیا کہ سچائی کو جان سکوں۔70ء کی دہائی میں ماسکو میں کمیونسٹ نظریئے کا کوئی حقیقی متبادل موجود نہیں تھا، سوائے آرتھوڈوکس چرچ کے اور انیس سال کی عمر میں، میں نے پہلی دفعہ چرچ کی دہلیز پار کی۔ یہ کسی خاص مذہب کا دل سے آزادانہ انتخاب نہ تھا، کیونکہ کسی چیز کا ’’انتخاب‘‘ کرنے کیلئے موازنہ کرنا پڑتا ہے اور میرے پاس کوئی ایسا نظریہ نہیں تھا، جس سے میں آرتھوڈوکس کا موازنہ کرتا۔ میرا یہ عمل صرف جھوٹے نظریات پر استوار مادہ پرستانہ زندگی سے انکار تھا۔
چنانچہ میں چرچ پہنچ گیا، جس کا دروازہ کھلا تھا۔ پہلی کوشش میں مجھے وہاں چوکیدار کی ملازمت بھی نہ مل سکی۔ دوسری کوشش میں کہا گیا کہ مجھ پر ابھی تک مارکسزم اور لینن ازم کے کمیونسٹ نظریات کے اثرات موجود ہیں اور تیسری دفعہ مجھے عیسائیوں کی تربیت گاہ میں داخلے کی اجازت مل سکی۔ 1983ء میں، میں پادری بن گیا۔ اس وقت میرے لئے یہ عہدہ، مادہ پرستی کے خلاف روحانی اور فکری جدوجہد کی ایک علامت کا درجہ رکھتا تھا۔ ماسکو میں حکومت نے مجھے کام کرنے کی اجازت نہ دی۔ چنانچہ مجھے وسطی ایشیائی ریاستوں کا رخ کرنا پڑا۔
میں اپنے آپ کو ایک ایسا شخص سمجھتا تھا جو خدا کی طرف سے مادہ پرستی کے خلاف جنگ لڑنے پر مامور ہے۔ تاہم روحانیت اور فکری ایمان کی دنیا میں خود کو وقف کر دینے کے بجائے، مجھے چرچ میں توہم پرست لوگوں کی طرف سے مختلف رسومات کی ادائیگی کا حکم ملتا۔ اگرچہ میں اس بات کا ادراک کر سکتا تھا کہ یہ رسومات اپنی بنیاد میں ان لوگوں کی روایات سے مختلف نہیں، جو مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ لیکن میں ان رسومات کی ادائیگی سے انکار نہیں کر سکتا تھا، کیونکہ یہ چرچ کی زندگی کا لازمی حصہ تھیں۔ میرے اندر اپنے ذاتی اعتقاد اور لوگوں کیلئے میرے مخصوص کردار کے درمیان جنگ چل رہی تھی۔
وسطی ایشیا میں میرا مسلمانوں اور اسلام کے ساتھ پہلا تعارف ہوا۔ ایک دفعہ چرچ میں میری ملاقات ایک بوڑھے صحت مند تاجک سے ہوئی، جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ صاحب کشف شیخ ہیں۔ مختصر گفتگو کے بعد انہوں نے اچانک مجھے مخاطب کر کے کہا: ’’تم ایک مسلم کی سی آنکھیں رکھتے ہو، تم ضرور مسلمان بنو گے‘‘۔ یہ بظاہر ایک ایسے شخص کی بات تھی، جو اس طرح کے مبہم اقوال کا عادی ہو، حتیٰ کہ چرچ میں پادری کے سامنے اس طرح کی بات کرنا خطرناک ہو سکتا تھا۔ لیکن اس جملے نے میرے اندر کوئی مزاحمت پیدا نہ کی، بلکہ یہ بات میری روح پر نقش ہو گئی۔ اس وقت تک مجھے اسلام کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭