سرفروش

عباس ثاقب
اس دوران میں بچے بھی سنتروں سے پیٹ بھرنے اور کھیل کود سے تھک جانے کے بعد ہمارے پاس آگئے۔ ان میں سے باقی سب تو حویلی کی طرف روانہ ہوگئے، البتہ امر دیپ کا لاڈلا مانو ہمارے پاس ہی ٹھہر گیا۔ وہ چھ سات سال کا اچھی خاصی جسامت کا صحت مند بچہ تھا۔ لیکن اسے تایا جی کی گود میں بیٹھنا کچھ زیادہ ہی اچھا لگتا تھا۔ امر دیپ نے شانوں تک لمبے اس کے ریشمی بالوں میں انگلیاں گھماتے ہوئے مجھے بتایا ’’دراصل میں نے پٹیالا کی دو پارٹیوں سے سنتروں کی بھاری مقدار کا سودا کر رکھا ہے۔ مجھے ان سے پیشگی رقم لینی ہے اور ان کی باغ میں آمد کا دن طے کرنا ہے۔ کیونکہ مجھے پیڑوں سے سنترے اتروانے کے لیے گاؤں سے دیہاڑی پر لوگوں کا بندوبست کرنا ہوگا‘‘۔
تایا کی بات سن کر مانو مچل اٹھا ’’تایا جی تایا جی، مجھے بھی آپ کے ساتھ پٹیالے جانا ہے۔ آپ پچھلی بار بھی وعدہ کرکے مُکر گئے تھے۔ اس بار میں آپ کے ساتھ ضرور جاؤں گا۔ آپ مجھے کہتے ہیں کہ جھوٹ بولنا بری بات ہے اور خود…‘‘۔
امر دیپ نے قدرے سخت لہجے میں اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ’’مانو میں نے تمہیں بدتمیزی کرنے سے بھی منع کیا ہے ناں؟ میں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا تھا۔ تم پتا جی کے ساتھ کھیتوں میں چلے گئے تھے اور مجھے جلدی تھی، انتظار نہیں کر سکتا تھا‘‘۔
امر دیپ کے لہجے میں ناراضی کی جھلک پاکر مانو نے مزید بحث نہیں کی، البتہ وہ چہکنا چھوڑکر تایا کی گود سے اترا اور میرے پاس چارپائی پر منہ بسور کر بیٹھ گیا۔ میں نے اس کی برہمی دور کرنے کے لیے شوشا چھوڑا ’’یار مانو، یہ بتاؤ کہ کیا تمہاری کسی لومڑی سے بھی دوستی ہے؟‘‘۔
یہ سن کر وہ بری طرح چونکا ’’لومڑی؟ فوکس!‘‘۔ اچانک اس کی آنکھیں دہشت سے پھیل گئیں۔ اس نے قدرے ہکلاتے ہوئے کہا ’’نن… نہیں… میری تو کسی فوکس سے دوستی نہیں ہے۔ اس کے تو لمبے لمبے دانت ہوتے ہیں۔ میں نے چڑیا گھر میں دیکھی تھی‘‘۔
میں نے کہا ’’ہاں، لومڑی کے پنجے بھی خطرناک ہوتے ہیں۔ پنجہ مار کر گوشت نوچ لیتی ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے یہاں آئی تھی اور پوچھ رہی تھی کہ مانو کو کہیں دیکھا ہے؟‘‘۔
یہ سنتے ہی مانو ناراضی بھول کر ایک بار پھر امر دیپ کی گود میں جا بیٹھا۔ جس نے اپنے بھتیجے کو تسلی دی ’’اوئے فکر نہ کر، دوبارہ اس طرف آئی تو میں جان سے مار دوں گا اس لومڑی کو!‘‘۔
مانو پہلے تو خوش ہوا، لیکن اس کے تیز ذہن نے فوراً ہی اسے ایک خیال سجھا دیا ’’لیکن تایا جی آپ کی بندوق تو گھر پر ہے۔ آپ لومڑی کو کیسے ماریں گے؟ آپ ایک بار پھر جھوٹ بول رہے ہیں کیا؟‘‘۔
اس بار خفا ہونے کے بجائے امر دیپ نے قہقہہ لگایا ’’ابے اُلّو، بندوق نہیں ہے تو کیا ہوا، تجھے میری بغل میں کرپان دکھائی نہیں دے رہی؟ اسے کیا دکھانے کے لیے لٹکا رکھا ہے میں نے؟ میرے مانو کی طرف آنکھ اٹھاکر تو دیکھے، لومڑی تو کیا، میں بھیڑیئے کے ٹکڑے کردوں گا!‘‘۔
یہ کہتے ہوئے امر دیپ نے کرپان میان سے نکال کر فضا میں لہرائی۔ بہت تیز دھار اور خاصا قیمتی ہتھیار تھا۔ جس کے ہاتھی دانت کے دستے پر نیلے نگینے جڑے ہوئے تھے۔ کرپان دیکھ کر مانو مطمئن ہوگیا۔ لیکن مجھے اس سے نوک جھونک میں مزا آرہا تھا ’’یار مانو، تم کیسے سردار ہو، تمہیں پتا ہے سنگھ کا مطلب ببر شیر یعنی لائن ہوتا ہے۔ تم لائن ہوکر چھوٹی سی فوکس سے ڈرتے ہو؟‘‘۔
میں نے امر دیپ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلتی دیکھی، جبکہ مانو کھسیانا سا ہوگیا ’’مجھے ڈر نہیں لگتا، بات یہ ہے ابھی میری کرپان نہیں ہے ناں!‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ میں پٹیالے سے تمہارے لیے چھوٹی سی کرپان لادوں گا!‘‘۔
مجھے فوراً ہی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ مانو کو ایک بار پھر پٹیالے جانے والی ضد یاد آگئی تھی ’’مجھے نہیں پتا تایا جی، مجھے آپ کے ساتھ پٹیالے جانا ہے۔ ورنہ میں آپ سے بہت زور سے ناراض ہوجاؤں گا‘‘۔
میں نے امر دیپ کی شکایتی نظروں کو بھانپ کر اپنی غلطی کی تلافی کرنے کی کوشش کی ’’یار مانو، بہت افسوس کی بات ہے۔ تم لوگ اکیلے اکیلے باغ میں گھوم پھرکر، اورنج کھاکر آگئے، مجھے پوچھا بھی نہیں۔ ریل میں تو بڑا کہہ رہے تھے کہ اپنے ساتھ لے جاکر پورے باغ کی سیر کراؤں گا اور اورنج کھلاؤں گا‘‘۔
میری بات سن کر وہ یک دم شرمندہ ہوگیا ’’وہ جی، آپ تو سو رہے تھے، ورنہ میں ساتھ لے کر ہی آتا!‘‘۔
میں نے کہا ’’تو چلو اب لے چلو۔ مجھے بھی اپنے ہاتھ سے پیڑ سے اورنج توڑ کر کھانے ہیں !‘‘۔
یہ سن کر مانو جھٹ سے امر دیپ کی گود سے اترا اور میرا ہاتھ پکڑکر کہا ’’چلیں، ابھی آپ کو دکھاتا ہوں سب سے اچھے اورنج کس ٹری پر لگے ہیں!‘‘۔
امر دیپ نے بلا ٹلنے پر مسکراتے ہوئے ستائشی نظروں سے مجھے دیکھا۔ ہم تینوں باغ کے ایک گنجان حصے میں پہنچے اور مانو کے منتخب کردہ درخت سے سنترے توڑ کر کھانے لگے۔ امر دیپ نے تائید کی کہ اس پیڑ پر نسبتاً بہتر پھل آئے ہوئے ہیں۔ زیادہ گنجائش تو تھی نہیں، چنانچہ دو چار سنترے کھانے کے بعد ہم دوبارہ چارپائیوں پر آ بیٹھے۔ مانو اب کچھ بیزار دکھائی دے رہا تھا۔ چنانچہ امر دیپ نے اسے اپنے کارندے کے ساتھ گائے بھینسوں کے باڑے میں بھیج دیا۔ جہاں ایک گائے ایک دن پہلے بچھڑے کی ماں بنی تھی۔
مانو کے رخصت ہونے پر امر دیپ نے بتایا کہ اسے پٹیالے میں پھلوں کے کئی بیوپاریوں کے پاس چکر لگانے پڑیں گے، لہٰذا مانو کی فرمائش پوری کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ’’ویسے بھی ہمیں شاید واپسی میں دیر ہوجائے۔ اتنے ٹھنڈے موسم میں ہم اسے کہاں لیے پھریں گے‘‘۔
میں نے کہا ’’آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ لیکن یہ ہماری واپسی پر بہت ادھم مچائے گا‘‘۔
امر دیپ مسکرایا ’’ تو تم ہو ناں اسے بہلانے کے لیے۔ مجھے تو غصہ آجاتا ہے خوامخواہ کی ضد پر۔ مانو کے علاوہ سب بچے احتیاط کرتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا ’’یہ آپ سے محبت بھی تو بہت زیادہ کرتا ہے۔ بلکہ مجھے تو لگتا ہے بشن دیپ سے زیادہ اسے آپ سے لگاؤ ہے‘‘۔
امر دیپ نے میری تائید کی ’’میرے لیے تو یہی بچہ سمجھو جینے کا جواز ہے۔ اس پر غصہ تو کرلیتا ہوں۔ لیکن پھر جب تک یہ خفگی بھول کر دوبارہ گلے سے نہیں لپٹ جاتا، مجھے چین نہیں آتا۔ میری اس کمزوری کا یہ اکثر بہت ناروا فائدہ بھی اٹھا جاتا ہے‘‘۔
مانو نے واپسی میں کافی دیر لگادی۔ ہم حویلی کی طرف روانہ ہوئے تو وہ تمام راستے نومولود بچھڑے کی تعریفوں کے پُل باندھتا رہا۔ ہم حویلی پہنچے تو بشن دیپ اور اس کے پتا جی عبادت گاہ سے واپس آچکے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ایک اور معمر شخص بھی براہم دیپ کے ساتھ بیٹھا ہے۔ وہ دونوں بے تکلفی سے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ ہمیں نشست گاہ میں داخل ہوتے دیکھ کر براہم دیپ جی نے نعرہ لگایا ’’کیا حال ہے جوانو؟ ادھر ہی آجاؤ، نیرج چائے بناکر لانے والا ہے‘‘۔
امر دیپ نے میرے لیے اجنبی بزرگ مہمان کو دیکھ کر دونوں ہاتھ جوڑے اور احترام سے سر جھکا کر کہا ’’ست سری اکال پھپھڑ (پھوپھا) جی! کیا حال ہے؟ بہت دنوں بعد چکر لگایا!‘‘۔ میں نے بھی امر دیپ کی پیروی میں مہمان کو نمسکار کیا۔ میں نے دیکھا کہ براہم دیپ سنگھ کا بہنوئی مجھے خاصے غور سے دیکھ رہا ہے۔
’’یہ ہے جی ہمارا نوجوان مہمان، تیغ بہادر سنگھ … بہت اچھا، نیک اور فرماں بردار لڑکا ہے!‘‘۔ براہم دیپ سنگھ کی بات سے ظاہر تھا کہ وہ پہلے ہی میرے بارے میں مہمان کو بتا چکے ہیں۔ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوئے ’’ان سے ملو بیٹا، یہ الکھ سنگھ ہیں۔ میری سورگ واسی بہن میرا کے گھر والے!‘‘۔
اس کی بات سن کر الکھ سنگھ یک دم جھلا اٹھا ’’سیدھے سیدھے جیجا جی کہنے میں کوئی مسئلہ ہے سردارجی؟‘‘۔ پھر وہ براہم دیپ کو شرمندہ سا چھوڑ کر میری طرف متوجہ ہوا ’’اچھا تو تم ہو ولایتی مہمان! میرے سالے جی نے بتایا ہے کہ تم لندن سے پنجاب دیکھنے آئے ہو؟ لندن تو بہت بڑا ہے۔ تمہارا گھر اور تمہارے باپ کا ریسٹورنٹ شہر کے کون سے حصے میں ہے؟ میں بھی وہاں دس سال رہ چکا ہوں۔ ہو سکتا ہے میں تمہارے باپ کو جانتا ہوں یا کبھی اس کے ہوٹل میں کھانا کھایا ہو‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment