امت رپورٹ
کراچی کے علاقوں ڈیفنس اور کلفٹن میں این اے 247 اور پی ایس 111 پر آج ہونے والے ضمنی الیکشن میں مفاد پرست متحدہ نے تحریک انصاف کیلئے میدان کھلا چھوڑ دیا۔ متحدہ کی جانب سے دونوں حلقوں میں نمائشی انتخابی مہم چلائی گئی۔ صرف پارٹی کے جھنڈے اور بینرز لگائے گئے، امیدواروں نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔ ذرائع کا کہنا ہے ایم کیو ایم پاکستان کراچی کے مذکورہ حلقوں میں تحریک انصاف کو فتح کا یقینی موقع دیکر وفاق میں وزارت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ قومی و صوبائی کے ان حلقوں میں واقع پوش علاقوں کلفٹن اور ڈیفنس کے علاوہ دیگر 10 آبادیوں کے مکین اور ووٹرز متحدہ سے شدید ناراض ہیں۔ الیکشن سے قبل ’’امت‘‘ کی جانب سے کئے گئے خصوصی سروے میں متحدہ کے زیر اثر علاقوں کے ووٹرز پھٹ پڑے۔ان کا کہنا تھا کہ وزارت کے لالچ میں متحدہ نے اپنے ووٹرز کا سودا کرلیا ہے۔ علاقوں میں نہ تو متحدہ کے رہنما اور امیدوار مسائل معلوم کرنے آئے ہیں اور نہ ہی تحریک انصاف والوں نے یہاں کا دورہ کیا ہے۔ بلدیاتی نمائندے بھی غائب ہیں۔ عوام اپنے مسائل کے حل کیلئے کس کے پاس جائیں۔ عوام کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ووٹنگ کی شرح انتہائی کم ہو سکتی ہے۔ دونوں حلقوں میں سیکورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق عام انتخابات میں بری طرح ناکام ہونے کے بعد متحدہ نے تحریک انصاف کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا تھا، جس کے نتیجے میں متحدہ کو دو وفاقی وزارتیں دی گئی تھیں، جبکہ یہ بھی طے ہوا تھا کہ کراچی میں تحریک انصاف کی خالی کردہ نشستیں جیتنے کی صورت میں متحدہ کو ایک اور وزارت دی جائیگی۔ تاہم متحدہ پاکستان نے گزشتہ اتوار کو قومی اسمبلی کی نشست پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں نمائشی انتخابی سرگرمیاں کرکے یہ نشست تحریک انصاف کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کردی تھی۔ جبکہ عارف علوی کی قومی اور عمران اسماعیل کی خالی کردہ صوبائی نشست پر آج ہونے والے الیکشن میں بھی متحدہ نے ڈبل پالیسی اپنائی۔ ذرائع کے مطابق اپنے حامیوں اور ووٹرز کو کہا جاتا رہا کہ قومی و صوبائی اسمبلی کی چھینی گئی نشستیں واپس لیں گے۔ لیکن اندر خانے پی ٹی آئی کیلئے میدان چھوڑ دیا گیا۔ ذرائع کے بقول این اے 247 کے پوش علاقوں کلفٹن اور ڈیفنس میں تحریک انصاف کا ووٹ بینک ہے۔ تاہم 10 دیگر آبادیوں میں متحدہ کا پکا ووٹ بینک ہے۔ لیکن وہاں متحدہ نے الیکشن جیتنے کیلئے روایتی انداز میں ورک ہی نہیں کیا۔ صرف جھنڈے اور بینرز لگائے گئے، ریلیاں نکالنے اور کارنر میٹنگز کرنے کا سلسلہ کم رہا۔ جبکہ انتخابی سرگرمیوں کے اختتام سے قبل برنس روڈ پر انتخابی جلسے کا پروگرام آخر تک فائنل نہیں ہوسکا۔ قومی اسمبلی کے حلقے میں متحدہ کے زیر اثر علاقے بھی ہیں۔ جن میں برنس روڈ، صدر، شیریں جناح کالونی، سولجر بازار، گارڈن، جوبلی، بھیم پورہ، رنچھوڑ لائن، چونا بھٹی، گذری اور پی این ٹی کالونی سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔ ’’امت‘‘ نے متحدہ کے زیر اثر علاقوں میں لوگوں سے بات چیت تو برنس روڈ کے رہائشی رحمت اللہ کا کہنا تھا کہ اگر گھر کے کاموں سے فرصت ملی تو ووٹ ڈالیں گے۔ پہلے متحدہ کے کارکن گھروں سے گاڑیوں میں بٹھاکر لے جاتے تھے، لیکن اب انہوں نے تحریک انصاف سے اتحاد کرلیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس بار متحدہ کے امیدوار نے علاقے کا دورہ کیا، نہ اس کے کارکن سرگرم ہیں۔ اکرم کا کہنا تھا کہ متحدہ نے جن لوگوں کو مالی فائدہ دیا یا نوکریاں دلوائیں وہی اس کو ووٹ دیں گے۔ عرفان کا کہنا تھا کہ حلقے میں کھچڑی بنی ہوئی ہے، پہلے متحدہ والے آکر گھروں سے لے جاتے تھے کہ پتنگ کو ووٹ ڈالو۔ اب وہ تحریک انصاف والوں کے ساتھ آرہے ہیں کہ ان کو ووٹ دو۔ متحدہ کو دو وزارتیں مل گئیں، ووٹرز کو کیا ملے گا۔ توفیق نے کہا کہ متحدہ والے اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں۔ ووٹرز کو بیوقوف بنا کر تحریک انصاف کیلئے میدان صاف کر چکے ہیں۔ سولجر بازار کے رہائشی رفیق کا کہنا تھا کہ تبدیلی کے دعوے کرنے والے اب کہاں ہیں، نہ منتخب نمائندے نظر آتے ہیں نہ تحریک انصاف کے ذمہ دار دکھائی دیتے ہیں۔ لیاقت نے کہا کہ متحدہ نمائشی طور پر جھنڈے اور بینرز لگاکر زبردستی خود کو زندہ دکھا رہی ہے۔ محبوب کا کہنا تھا کہ ضمنی الیکشن ہارنے کے بعد متحدہ اب بلدیاتی الیکشن بھی تحریک انصاف کی گود میں ڈالے گی۔ کامران کا کہنا تھا کہ الیکشن صرف دکھاوا ہیں۔ متحدہ اب تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ہے، یہ دونوں مل کر عوام کا خون چوسیں گے۔ محمد عمر نے کہا کہ بلدیاتی نمائندوں نے متحدہ کے جھنڈے اور بینرز لگائے ہیں۔ پہلے یہ لوگ الیکشن فنڈز جمع کرتے تھے اب رہنما خود فنڈز جمع کرکے کام چلاتے ہیں۔ فیض احمد قریشی کا کہنا تھا کہ وہ پتنگ پر مہر لگائیں گے کیونکہ انہیں علاقے میں رہنا ہے۔ عزیز اللہ کا کہنا تھا کہ اتوار کا دن چھٹی کا ہے، مزے سے گھر میں آرام کریں گے۔ رحمان خان نے کہا کہ وہ ووٹ ڈالنے کیلئے اپنی دیہاڑی نہیں چھوڑ سکتے۔ جوبلی کے مکینوں کی اکثریت کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف بھی متحدہ کا دوسرا رخ ہے، کیونکہ اس پارٹی نے بھی عوام کو مایوس کیا ہے۔ قومی و صوبائی کے دونوں حلقوں میں انتخابی گہماگہمی نہیں نظر آئی۔ ان ضمنی الیکشن میں بھی ٹرن آئوٹ بہت کم رہنے کا امکان ہے۔ کراچی میں گزشتہ اتوار کو ہونے والے قومی کی نشست پر ضمنی الیکشن میں ووٹنگ کی شرح 13.70 فیصد رہی تھی۔ آج ہونے والے ضمنی الیکشن میں این اے 247 کی نشست پر پیپلز پارٹی کے قیصر نظامانی، متحدہ پاکستان کے صادق افتخار، تحریک انصاف کے آفتاب حسین صدیقی اور پی ایس پی کے ارشد ووہرا نمایاں امیدوار ہیں۔ جبکہ مجموعی طور پر 12 امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ 240 پولنگ اسٹیشن بنائے گئے ہیں، جن پر 2720 افراد انتخابی ڈیوٹی انجام دینگے۔ ووٹرز کی تعداد 5 لاکھ 46 ہزار 451 ہے۔ جبکہ سیکورٹی پر 4280 اہلکار تعینات ہوں گے۔ صوبائی حلقہ پی ایس 111 میں 80 پولنگ اسٹیشن بنائے گئے ہیں۔ یہاں ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 78 ہزار 965 ہے۔ انتخابی عملہ 8 سو سے زائد ہوگا۔ صوبائی حلقے میں 16 امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے شہزاد قریشی، متحدہ پاکستان کے ڈاکٹر جہانزیب، پیپلز پارٹی کے فیاض پیرزادہ اور پی ایس پی کی جانب سے ڈاکٹر یاسر امیدوار ہیں۔
٭٭٭٭٭