امت رپورٹ
افغانستان میں ہفتے کے روز پارلیمانی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ طالبان اقتدار کے خاتمے کے بعد چوتھی بار اپنی پارلیمان انتخاب کا کرنے کے لئے افغان شہریوں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ اس الیکشن کے پس منظر سے واقف ذرائع اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اول تو ان انتخابات کی ساکھ نہیں، کیونکہ یہ ملک کے محض تیس سے پینتیس فیصد علاقوں میں کرائے جا سکے۔ پھر یہ کہ نتائج کا فیصلہ بھی بیرونی قوتوں نے کرنا ہے۔
افغان ایوان زیریں (ولسی جرگہ) کے انتخابات میں 250 نشستوں پر درجنوں چھوٹی بڑی پارٹیوں، گروپوں اور سینکڑوں آزاد امیدواروں سمیت دو ہزار 450 افراد نے حصہ لیا۔ تاہم الجزیرہ انگلش کی ایک رپورٹ کے مطابق ان انتخابات میں حصہ لینے والی بڑی سیاسی پارٹیوں میں صلاح الدین ربانی کی جمعیت اسلامی، محمد محقق کی پیپلز اسلامک یونٹی پارٹی آف افغانستان، کریم خلیلی کی حزب وحدت اسلامی، صبغت اللہ سنجار کی حزب جمہوری افغانستان، عبدالرشید دوستم کی جنبش ملی اسلامی شامل ہیں۔ ان پارٹیوں کے بالترتیب 23، 11، 7، 9 اور 10 ارکان موجودہ پارلیمنٹ کا بھی حصہ ہیں۔ اسی طرح گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی بھی حالیہ الیکشن کے عمل میں شامل اہم پارٹیوں میں سے ایک ہے۔
الیکشن کے روز 21 ہزار پولنگ اسٹیشنوں کی سیکورٹی کے لئے 70 ہزار سیکورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا۔ اس کے باوجود خطرات کے سبب دو ہزار کے قریب پولنگ اسٹیشن بند رکھنا پڑے۔ ووٹنگ صبح سات بجے شروع ہونی تھی، لیکن 75 فیصد پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹنگ کے عمل میں چار سے پانچ گھنٹے کی تاخیر ہوئی۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق طالبان حملوں کے خطرے کے پیش نظر ووٹر گھروں سے نکلنے میں خوف کا شکار رہے۔ یوں زیادہ تر مقامات پر ووٹنگ طویل تاخیر کا شکار ہوئی۔ جس کے سبب ووٹنگ کے عمل میں رات 8 بجے تک توسیع کی گئی۔ مختلف حلقوں میں آج اتوار کے روز بھی ووٹنگ متوقع ہے۔ دوسری جانب انتخابات کے دوران سارا دن پولنگ اسٹیشنوں پر حملوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ جس میں دو درجن سے زائد افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ افغان وزارت خارجہ کے مطابق الیکشن والے روز طالبان حملوں میں ہلاک افراد کی تعداد28 ہے۔ جس میں 11 سیکورٹی اہلکار شامل تھے۔ مجموعی طور پر ملک بھر میں سیکورٹی سے متعلق 192 واقعات رپورٹ ہوئے۔ گورنر کمپائونڈ پر الیکشن سے ایک روز پہلے ہونے والے حملے کے سبب قندھار میں پہلے ہی الیکشن ایک ہفتے کے لئے موخر کئے جا چکے ہیں۔ اسی قسم کی اطلاعات صوبہ غزنی کے بارے میں بھی ہیں۔
کابل میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ تین برس سے زیر التواء الیکشن کرانا افغان حکومت اور امریکہ دونوں کے لئے ضروری ہو گیا تھا، تاکہ دنیا کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ طالبان کے حملوں کے باوجود ملک میں جمہوریت کا عمل جاری ہے۔ پھر یہ کہ امریکہ کی خواہش ہے کہ طالبان کے ساتھ پس پردہ اس نے مذاکرات کا جو عمل شروع کر رکھا ہے اس عمل میں مزید پیش رفت ہونے سے پہلے افغانستان میں پشتون اکثریت والی ایک نئی حکومت برسراقتدار آ جائے تاکہ وہ آسانی کے ساتھ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کر سکے۔ ذرائع کے بقول اس سے قطع نظر کہ حالیہ الیکشن میں کون سی پارٹی یا گروپ اکثریتی ووٹ حاصل کرتا ہے۔ نئی حکومت، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مرضی سے بنے گی۔ الیکشن سے تقریباً ایک ہفتہ قبل اس خدشے کا اظہار حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے بھی کیا تھا۔ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گلبدین حکمت یار کا کہنا تھا کہ پارلیمانی انتخابات افغانستان کے محض 36 فیصد حصے میں ہوں گے۔ جبکہ موجودہ حکومت اور کابل میں مختلف ممالک کے غیر ملکی سفارت خانے پارلیمانی الیکشن کے نتائج انجینئر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گلبدین حکمت یار کے بقول پارلیمانی الیکشن میں فاتح اور شکست کھانے والوں کا فیصلہ الیکشن کمیشن یا بیلٹ بکسوں میں ڈالے جانے والے عوامی ووٹوں کے ذریعے نہیں ہوگا۔ یہ فیصلہ غیر ملکی طاقتوں کے احکامات اور سفارشات پر کیا جائے گا۔ یہ طاقتیں ہی فیصلہ کریں گی کہ کس امیدوار کو ہارنا اور کس کو جیتنا چاہئے۔
معروف عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ کا کہنا ہے کہ ملک کے ایک بڑے حصے کو محروم رکھ کر کرائے جانے والے افغان پارلیمانی انتخابات کی کریڈبیلٹی کو کون مانے گا ؟ ملک کے 50 فیصد حصے پر طالبان کا کنٹرول اور 70 فیصد علاقوں پر ان کا اثر و رسوخ ہے۔ اس لحاظ سے افغانستان کی نصف کے قریب آبادی طالبان کے ساتھ ہے، جنہوں نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ ایسی صورت حال میں الیکشن کیسے شفاف ہو سکتا ہے۔ اور اس کی کیا ساکھ ہوگی؟ طالبان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ امریکی فوجوں کی موجودگی میں افغانستان میں صاف اور شفاف الیکشن ممکن نہیں۔ آصف ہارون کے بقول افغانستان میں الیکشن کی حیثیت وہی ہے جو مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کی ہوتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی الیکشن یہی بھونڈی توجیہ پیش کرنے کے لئے کرائے جاتے ہیں کہ وہاں جمہوری عمل جاری ہے۔ لہٰذا اسے بھارتی فوج کے زیر تسلط علاقہ کیسے کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھارت مقبوضہ کشمیر پر اپنے غیر قانونی قبضے کو قانونی قرار دینے میں مسلسل ناکام ہے۔ طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے افغانستان میں الیکشن کے نام پر ڈرامہ کر کے اسی نوعیت کی کوششیں امریکہ کی جانب سے کی جا رہی ہیں۔ آصف ہارون کے مطابق 2001ء میں افغانستان پر قبضے کے بعد کرزئی کی حکومت بنانے کے لئے امریکہ نے ساڑھے تین ارب ڈالر خرچ کئے تھے۔ جس میں تمام وار لارڈز کو خریدنے کے لئے خرچ کی جانے والی خطیر رقم شامل ہے۔ کابل کی موجودہ اتحادی حکومت بھی امریکہ کی مرضی کے مطابق بنی۔ یہی کچھ حالیہ الیکشن کے نتائج اور نئی حکومت کے سلسلے میں بھی ہو گا۔ آصف ہارون کا کہنا تھا کہ حالیہ الیکشن کے حوالے سے امریکہ نے پلان ’’اے‘‘ اور پلان ’’بی‘‘ بنا رکھا ہے۔ اس وقت طالبان کے ساتھ کسی سیاسی معاہدے پر پہنچنے کے لئے امریکہ حد درجہ کوششیں کر رہا ہے۔ ان امریکی کوششوں میں پاکستان کے علاوہ قطر، سعودی عرب، چین ، ایران اور روس سب شامل ہیں۔ طالبان کے ساتھ اگر امریکہ کا کوئی سیاسی معاہدہ ہو جاتا ہے تو پھر نئی کولیشن افغان گورنمنٹ میں طالبان کو بڑا حصہ دیا جائے گا۔ اور اگر یہ کوششیں کامیاب نہیں ہو پاتیں تو پلان ’’بی‘‘ کے تحت امریکہ، گلبدین حکمت یار کو وزیراعظم بنانے پر غور کر رہا ہے۔ جو پہلے بھی وزیراعظم رہ چکے ہیں اور اپنے دور کے مقبول ترین لیڈر تھے۔ آصف ہارون کے بقول نئے انتخابات کے نتیجے میں بھی کوئی پارٹی اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی اور اتحادی حکومت بننے کا ہی امکان ہے جس میں گلبدین حکمت یار کی شکل میں پشتونوں کو بڑا حصہ دیا جا سکتا ہے۔ جبکہ حالیہ الیکشن کے بارے میں گلبدین حکمت یار کے خدشات کو آصف ہارون نے انتخابی مہم کے دوران دیا جانے والا بیان قرار دیا۔
ادھر بی بی سی انگلش سروس کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک میں انتخابات کے نتائج عموماً چوبیس گھنٹے کے اندر آ جاتے ہیں۔ تاہم افغانستان میں یہ عمل قدرے طویل ہوگا۔ اس کا ایک سبب لاجسٹک چیلنجز ہیں، جس میں ملک کے غیر محفوظ اور دور دراز علاقوں سے بیلٹ بکسوں کو کابل پہنچانے کے علاوہ مختلف مراحل میں ووٹوں کی گنتی اور تصدیقی عمل ہے۔ ووٹنگ ختم ہونے کے بعد پولنگ اسٹیشنوں میں مبصرین کی موجودگی میں پہلی گنتی ہوگی اور پھر ابتدائی نتائج کی شیٹ محفوظ بیگ میں کابل بھیجی جائے گی جبکہ ان نتائج کی ایک کاپی پولنگ سینٹر کے پاس آویزاں کی جائے گی۔ دیگر کاپیاں امیدواروں اور صوبائی شکایتی کمیشن کو بھیجی جائیں گی۔ جب ایک بار بیلٹ باکسز الیکشن کمیشن کے مرکزی آفس میں پہنچ جائیں گے تو ووٹوں کی دوبارہ گنتی ہوگی۔ رپورٹ کے مطابق ابتدائی نتائج الیکشن کے 20 روز بعد 10 نومبر کو متوقع ہیں۔ اس طویل عمل کے دوران ہی شکایات اور ان کا ازالہ کیا جائے گا جبکہ حتمی نتائج کا اعلان 20 دسمبر کو ہوگا۔
٭٭٭٭٭