نفس کی خاطر!

حضرت ابن مبارک ؒ کی توبہ کا سبب یہ واقعہ ہوا کہ آپ ایک کنیز پر فریفتہ ہوئے اور نہایت سردی میں ساری رات اس کے انتظار میں کھڑے رہے اور صبح تک آپ نے تہجد کی نماز بھی نہ پڑھی، حالانکہ آپ کا معمول تھا کہ رات بھر نوافل پڑھتے۔
صبح آپ کو خیال آیا کہ ساری رات ایک عورت کے انتظار میں بسر کردی، حالانکہ نماز پڑھانے والا اگر سورۃ لمبی کر دے تو کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ نماز پڑھانے والا دیوانہ ہے اور شور وفغان کرتے ہیں، ان کی فطرت سے فریاد بلند ہوئی اے مبارک کے بیٹے! تجھے حیا آنی چاہئے کہ رات تو نے نفس کی خاطر پائوں پر بسر کر دی، اسی وقت آپ کے دل میں ایک درد پیدا ہوا، آپ نے توبہ کی اور عبادت میں مشغول ہوگئے اور اعلیٰ مقام پر پہنچ گئے۔ (مخزن صفحہ نمبر 296)
ادب!
حضرت دائود طائی ؒ فرماتے ہیں کہ میں بیس سال امام ابو حنیفہؒ کی خدمت میں حاضر رہا اور اس مدت میں، میں نے دیکھا کہ آپ کبھی بھی برہنہ سرنہ بیٹھے اور نہ کبھی آرام کے لئے پائوں دراز کئے، میں نے عرض کیا :حضرات! اگر خلوت میں پائوں دراز کریں تو کیا ہوگا؟ آپ نے فرمایا خلوت میں حق تعالیٰ کے ساتھ مودب رہنا نہایت اچھاہے۔ (مخزن صفحہ نمبر 299)
پیکر ِعلم و عمل
رافع بن علی حمال بڑے باکمال عالم اور عظیم فقیہ تھے اور ان کا سب سے بڑا اعزاز یہ تھا کہ یہ ’’جار اللہ‘‘ تھے، کعبہ شریف کے جوار میں زندگی گزارتے تھے۔ زندگی کا اکثر حصہ مکہ مکرمہ میں گزارا۔ مزدوری اور حمالی (وزن اٹھانا) کے باوجود علم و فضل کی نعمتِ عظمیٰ پر فائز ہوئے۔ وجہ یہ تھی کہ انہوں نے طالبِ علمی کے زمانے ہی میں خود کو علم و عمل، عطائے علم پر شکر و امتنان کا عادی بنا دیا تھا۔ (ارباب علم و کمال اور پیشہ رزق حلال صفحہ نمبر 139)
تسبیح پڑھنا افضل ہے یا استغفار کرنا
علامہ ابن جوزیؒ سے ایک شخص نے ایک مرتبہ سوال کیا:
کون سی چیز افضل ہے تسبیح پڑھنا یا استغفار کرنا؟ علامہ ابن جوزیؒ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ میلا کپڑا صابن کا زیادہ محتاج ہوتا ہے، بمقابلہ خوشبو کے (یعنی استغفار افضل ہے تسبیح سے) استغفار بمنزلہ صابن کے ہے اور تسبیح بمنزلہ خوشبو کے ہے، پس پہلے استغفار سے گناہوں کو دھونا چاہئے، بعد میں تسبیح کی خوشبو لگانی چاہئے۔

Comments (0)
Add Comment