معارف القرآن

معارف و مسائل
مذکورہ حدیث میں ثقلین سے مراد دو وزن دار قابل قدر چیزیں ہیں۔ آیت مذکورہ میں جن وانس کی دونوں نوعوں کو ثقلین اسی مفہوم کے اعتبار سے کہا گیا ہے کہ زمین پر بسنے رہنے والی سب ذی روح چیزوں میں جن وانس سب سے زیادہ وزن دار اور قابل قدر ہیں اور سنفرغ، فراغ سے مشتق ہے، جس کے معنی کسی شغل سے فارغ اور خالی ہونے کے ہیں، فراغ کا مقابل لغت میں شغل ہے اور لفظ فراغ دو چیزوں کی خبر دیتا ہے اول یہ کہ کسی شغل میں مشغول تھا، دوسرے یہ کہ اب اس شغل کو ختم کر کے فارغ ہوگیا، یہ دونوں باتیں مخلوقات میں تو معروف و مشہور ہیں، انسان کبھی ایک شغل میں لگا ہوا ہوتا ہے پھر اس سے فارغ ہو جاتا ہے، مگر حق تعالیٰ جل شانہ ان دونوں سے بری ہیں، نہ ان کو ایک شغل دوسرے شغل سے مانع ہوتا ہے، نہ وہ کبھی اس طرح فارغ ہوتے ہیں، جس طرح انسان فارغ ہوا کرتا ہے۔
اس لئے آیت مذکورہ میں سنفرغ کا لفظ ایک تشبیہ و استعارہ کے طور پر لایا گیا ہے جو عام انسانوں میں رائج ہے کہ کسی کام کی اہمیت بتلانے کے لئے کہا جاتا ہے کہ ہم اس کام کے لئے فارغ ہوگئے یعنی اب پوری توجہ اسی کام پر ہے اور جو آدمی کسی کام پر اپنی پوری توجہ خرچ کرتا ہے اس کے لئے محاورہ میں کہا جاتا ہے کہ اس کو تو اس کے سوا کوئی کام نہیں۔
اس سے پہلی آیت میں جو یہ مذکور تھا کہ آسمان و زمین کی ساری مخلوقات اور ان کا ایک ایک فرد حق تعالیٰ سے اپنی حاجات مانگتا رہا ہے اور حق تعالیٰ ہر وقت ہر حال میں ان کی درخواست پورا کرنے کے لحاظ سے ایک خاص شان میں ہوتے ہیں، آیت سنفرغ لکم الخ میں یہ بتلایا گیا ہے کہ قیامت کے روز درخواستوں اور ان کے قبول اور ان پر عمل کا سب سلسلہ بند ہو جائے گا، اس وقت کام صرف ایک رہ جائے گا اور شیون مختلفہ میں سے صرف ایک شان ہوگی، یعنی حساب و کتاب اور عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ (روح)(جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment