حصہ دوم
ضیاءالرحمن چترالی
1985ء میں متعلقہ حکام کی حکم عدولی کرنے پر مجھ سے چرچ میں کام کرنے کا اجازت نامہ واپس لے لیا گیا۔ ایک دفعہ پھر میں نے جرمن زبان سے روسی زبان میں تراجم کر کے اپنے لئے روزی کا ذریعہ پیدا کیا۔ جب 1988ء میں گورباچوف نے عیسائیت کے متعارف ہونے کے 1000 سالہ جشن کی اجازت دی تو ایسے تمام پادریوں کو ’’معافی‘‘ مل گئی اور مجھے Kaluga کے علاقے میں ایک تباہ شدہ چرچ میں خدمات انجام دینے کی پیشکش کی گئی۔ 1990ء میں مجھے محض حادثاتی طور پر Kaluzhsky کے لوگوں کے نمائندہ کی حیثیت سے رشین فیڈریشن میں ڈپٹی بنا دیا گیا۔ مجھے ڈیموکریٹس نے کمیونسٹ امیدوار کے مقابلے میں اس انتخاب میں دھکیلا تھا۔
Kaluga کے لوگوں نے جب امیدواروں کی فہرست پر نظر دوڑائی تو ان کا کہنا تھا: ’’باقی سب جائیں بھاڑ میں، Obninsk کے پادری کو ووٹ دینا چاہئے۔‘‘ چنانچہ مجھے ووٹ دیا گیا۔ پھر مجھے روسی فیڈریشن کی مذہبی امور کی کمیٹی سپریم سوویت کونسل کی چیئرمین شپ کیلئے امیدوار بنایا گیا۔ مجھے چیئرمین منتخب کر لیا گیا۔ ایک وکیل کے ساتھ مل کر میں نے روس کے ’’مذہبی آزادی‘‘ کے نئے قانون کا متن لکھا، جس نے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو حقیقی آزادی دی۔
مذہبی آزادی کے نمونے کے طور پر کرسمس کے دن چھٹی کے اعلان کا فیصلہ کیا گیا۔ ہفتے کے اختتام پر میں عبادت کیلئے Obninsk کے چرچ میں آیا کرتا تھا۔ اس وقت الحادی نظریات کے خلاف ہماری جدوجہد کمزور ہو کر دوبارہ ماضی جیسی صورتحال کا شکار ہو چکی تھی۔ پہلی بات تو یہ کہ چرچ میں آ کر کسی ذہنی کشادگی کا احساس نہیں ہوتا تھا اور یہ صرف عمارت کی تعمیر تک محدود تھا، جہاں مذہبی رسوم کی ادائیگی ہوتی تھی اور آمدنی کا ذریعہ تھا۔
چرچ کے نظام نے پادریوں کو عام لوگوں پر اپنی وہ انتظامی طاقت لوٹا دی تھی، جو انہوں نے 1917ء میں انقلاب کے بعد کھوئی تھی۔ میں محسوس کرنے لگا تھا کہ ایک پادری خدا کا پیغام پہنچانے پر مامور نہیں ہے، بلکہ وہ مذہبی عبادات و رسومات کرانے کیلئے مخصوص ہے۔ چنانچہ 1991ء میں، میں نے رضا کارانہ طور پر ریاست کی طرف سے چرچ کی ملازمت چھوڑ دی۔
1993ء میں سپریم کونسل کے ختم ہونے پر چرچ کے اسٹاف کی حیثیت سے میں واپس چرچ میں نہیں گیا، اگرچہ مجھے ماسکو میں ان خدمات کیلئے پیشکش کی گئی تھی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے ایک وقفے کی ضرورت ہے تاکہ میں اپنے تناظر میں دنیا اور خود کو سمجھ سکوں۔ میں نے چرچ کی تاریخ اور عیسائیت کے بنیادی مآخذ کو پڑھنا شروع کیا۔ اسے پڑھ کر میرے دل میں عیسائی روایات کے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ عیسائیت میں کوئی ایسی ایک کتاب نہیں ہے، جو دعویٰ کر سکے کہ یہ فی الواقع خدا کے اپنے الفاظ پر مشتمل ہے۔
1995ء میں، میں مکمل طور پر اس بات کا ادراک کر چکا تھا اور اس وقت سے میں نے چرچ کی تمام عبادات میں شمولیت ترک کر دی۔ تاہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق عیسائیوں کی تربیت گاہ میں سکھائی جانے والی روایات نے مجھے خدا کی وحدانیت کے سادہ اصول کو سمجھنے سے باز رکھا۔ میں ابھی تک اسلام کی تعلیمات سے آگاہ نہیں تھا۔ قرآن کے ترجمے کے مطالعے نے میرے لئے خدا کی وحی کا مفہوم مکمل طور پر بدل دیا۔ اسلام قبول کرنے کے متعلق میرے تمام خدشات اس وقت مکمل طور پر دور ہو گئے، جب میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن کی تعلیمات پڑھیں۔
قرآن مجید میں خدا کی وحدانیت پر زور دیا گیا ہے۔ چنانچہ میں پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد مصطفیؐ پر ایمان لے آیا، جن کے متعلق حضرت عیسیٰؑ نے بشارت دی تھی۔ قرآن مجید کی تعلیمات نے غلامی اور سماجی اونچ نیچ کا خاتمہ کر دیا۔ ایک مادہ پرست معاشرے میں انسانی حقوق اور آزادی کو وقتی طور پر معاشرے میں استحکام حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، اس میں ابدی زندگی کا کوئی تصور نہیں، ایسے معاشروں میں ایسا کوئی پیمانہ نہیں، جس پر آپ شخصی آزادی کی ان حدود کو جانچ سکیں، جب وہ غیر اخلاقی پن، دہشت اور انارکی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک انسانی حقوق اور آزادی خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان کو ودیعت کئے گئے ہیں تاکہ وہ رب تعالیٰ کی رضا پر چلتا ہوا دائمی زندگی حاصل کرے۔ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ یہ الفاظ اس آزادی کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ قرآن کے مطالعے کے بعد 1999ء میں، میں نے اپنی بیوی کے ہمراہ اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا‘‘۔ (جاری ہے)