آخری حصہ
جب جیل میں غازی علم دینؒ کو پھانسی کا حکم سنایا تو ان کے جسم میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ چہرہ تمتما اٹھا اور وہ یہ شعر گنگنانے میں محو ہوگیا:
بے تاب ہو رہا ہوں فراق رسولؐ میں
اک دم کی زندگی بھی محبت میں ہے حرام
پھانسی کی سزا سننے والا شخص جتنا بھی دلیر ہو پھانسی کی سزا کا اعلان ہو جانے کے بعد اس کا وزن ضرور گھٹتا ہے، بڑھتا نہیں، لیکن عاشق رسولؐ غازی علم دینؒ کا وزن 22م مئی 1929ء کو 128 پونڈ تھا اور شہادت کے دن ان کا وزن 140 پونڈ کے قریب تھا۔ یہ دنیا کی انوکھی مثال ہے۔
31 اکتوبر 1929ء بروز جمعرات میانوالی جیل ہی میں اس مرد مجاہد کو تختہ دار پر چڑھانے کا اہتمام کیا گیا۔ آپ نے دو نوافل ادا کئے اور بڑے اطمینان اور وقار کے ساتھ تختہ دار کی طرف بڑھے اور پھندے کو چومتے ہوئے خوشی سے زیب گلو کر لیا اور درود و سلام پڑھتے ہوئے جام شہادت نوش کرکے حیات جاوداں پا گئے۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں
علامہ اقبالؒ نے جب جنازے کی کیفیت دیکھی اور شہید کے چہرے کی زیارت سے فیضیاب ہوئے، تو فرماتے لگے ’’اسیں گلاں ای کر دے رہے تے تر کھاناں دا منڈا بازی لے گیا‘‘ (یعنی ہم باتیں کرتے رہے، ترکھان کا بیٹا بازی لے گیا) غازی علم دینؒ کو لاہور میں چوبرجی کے بالکل نزدیک میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
خاک ہو کر عشق میں آرام سے سونا ملا
جان کی اکسیر ہے الفت رسول اللہؐ کی
صاحبزادے خورشید احمد گیلانی رقمطراز ہیں، غازی علم دینؒ کا مقسوم دیکھئے! نہ چلہ کیا نہ مجاہدہ، نہ حج کیا، نہ عمرہ، نہ دیر میں نقشہ کھینچا نہ حرم کا مجاور بنا، نہ مکتب میں داخلہ لیا، نہ خانقاہ کا راستہ دیکھا، نہ کنز و قدوری کھول کر دیکھی، نہ رازی و کشاف کا مطالعہ کیا، نہ حزب البحر کا ورد کیا، نہ اسم اعظم کا وظیفہ پڑھا، نہ علم و حکمت کے خم و پیچ میں الجھا، نہ کسی حلقہ تربیت میں بیٹھا، نہ کلام و معانی سے واسطہ رہا، نہ فلسفہ و منطق سے آشنا ہوا، نہ مسجد کے لوٹے بھرے، نہ تبلیغی گشت کیا، نہ کبھی شیخ بگھاری، نہ کبھی شوخی دکھائی، اسے پاکبازی کا ضبط نہیں، محبوب حجازی سے ربط تھا، وہ تسبیح بدست نہیں، مست مئے الست تھا، وہ مسند آراء نہیں، فقیر سر راہ تھا۔
جس زمانے میں یہ رسوائے زمانہ کتاب لکھی اور چھاپی گئی، شہر لاہور میں ظاہر ہے حق ہو کے زلزلے ہوں گے، علم و فضل کے چرچے ہوں گے، تقریر و تحریر کے ہم ہمے ہوں گے، وعظ ونصیحت کے غلغلے ہوں گے، ادیبوں اور خطیبوں کے طنطنے ہوں گے، لیکن شاتم رسول کو اسفل السافلین میں پہنچانے کی سعادت کسی صوفی باصفا، کسی امام ادب و انشا، کسی خطیب شعلہ نوا اور کسی سیاسی رہنما کے حصے میں نہیں آئی، بلکہ ایسے مزدور کو ملی جو ممتاز دانشور نہیں معمولی کاریگر تھا، جس کی پیشانی پر علم و فضل کے آثار نہیں، ہاتھوں میں لوہے کے اوزار تھے، خدا معلوم وہ نمازی تھا یا نہیں، لیکن صحیح معنوں میں غازی نکلا، وہ کلاہ و دستار کا آدمی نہیں تھا، مگر بڑے کردار کا حامل بن گیا۔
حاصل… غازی علم دینؒ نے فن تجوید و قرأت سیکھا، نہ عربی فارسی پڑھی، نہ رومی کی مثنوی دیکھی، نہ زمحشری کی کشاف پڑھی، نہ دین کے اسرار و رموز سمجھے، مگر ایک راز اس پر ایسا کھلا کہ مقدر کے بند کواڑ کھل گئے۔ قسمت کا دریچہ کیا کھلا کہ جنت کے دروازے کھل گئے، یہ عقل خودبین کا کرشمہ نہیں، عشق خدابین کا معجزہ تھا کہ کل تک دکان پر ٹھک ٹھک کرنے والا علم دینؒ آج کروڑوں مسلمانوں کے سینے میں دل بن کر دھک دھک کر رہا ہے۔ (بحوالہ عشق رسولؐ کے ایمان افروز واقعات)
حاصل… بیشک عشق رسالت کی بات ہی نرالی ہے، زہے نصیب جس کا عشق رسالت کے لیے کچھ لگ جائے اور حقیقت یہ ہے کہ رسول اقدسؐ کے لئے یہ جان بھی چلی جائے اور خدا اور اس کا رسول راضی ہوجائے تب بھی یہ سودا سستا ہے، دعا ہے کہ رب تعالیٰ ہم سب کو اس واقعہ سے سبق حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔